آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں بھی تین مارچ کو سینیٹ کی 12 نشستوں پر انتخاب ہو رہا ہے۔ پنجاب کی طرح بلوچستان میں بھی بلامقابلہ سینیٹر منتخب کرانے کی کوششوں میں بظاہر ناکامی کے بعد بدھ کو بلوچستان اسمبلی میں پولنگ ہو گی۔
گزشتہ ایک ہفتے سے بلوچستان میں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے ملاقاتوں اور جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری رہا اس دوران حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل اپوزیشن کی جماعتیں اپنے اُمیدواروں کی کامیابی کے لیے سرگرم رہیں۔
ادھر پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی بھی انتخابات کی تیاریوں اور جوڑ توڑ کے سلسلے میں کوئٹہ میں موجود ہیں۔
اس دوران صادق سنجرانی کی سربراہی میں حکومتی وفد نے پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن کی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری سے پیر کو ملاقات کی۔ ملاقات میں سینیٹ کے انتخابات میں پنجاب کے فارمولے پر راضی کرنے سے متعلق اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے لیے حکومت کا پیغام پہنچایا گیا۔
ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے اپوزیشن کو 12 میں سے چار نشستیں دینے کی پیش کش کی گئی تاہم اپوزیشن نے حکومت کی اس پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے اپنا فارمولا دیا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں سینیٹ الیکشن ہوتا کیسے ہے؟بلوچستان سے کون کون سے سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں؟
بلوچستان سے ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ اور گل بشرہ، جمیعت علمائے اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری، بلوچستان عوامی پارٹی کے منظور خان کاکڑ، سرفراز احمد بگٹی، خالد بزنجو، نصرت شاہین، نیشنل پارٹی کے محمد کیبیر محمد شئی اور ڈاکٹر آشوک کمار، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شاہ زیب درانی، نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی جب کہ ایک آزاد سینیٹر یوسف بادینی شامل ہیں۔
دوسری جانب سینیٹ انتخابات کی تیاریوں اور حکومتی پیش کش کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس پیر کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر جان مینگل کی رہائش گاہ پر ہوا۔
اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے قائد محمود خان اچکزئی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری اور بلوچستان کے اپوزیشن اراکین نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے پریس کانفرنس کی۔
اس موقع پر مولانا غفور حیدری نے کہا کہ پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت نے ضمنی اور سینیٹ کا الیکشن متفقہ طور پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
غفور حیدری نے کہا کہ "ہمارے اتحاد کی برکت سے پی ڈی ایم کو کامیابی ملے گی اور سینیٹ الیکشن کے بعد 26 مارچ سے حکومت کے خلاف لانگ مارچ شروع کیا جائے گا۔"
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا کہ پی ڈی ایم اتحاد کا کریڈٹ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے۔
اختر مینگل نے کہا کہ پہلے بھی ہم مشترکہ امیدوار لائے تھے اور اب بھی سینیٹ کے حوالے سے مشترکہ امیدوار لانے کا فیصلہ ہوا ہے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے قائد محمود خان اچکزئی نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں بلا مقابلہ ممبران کا چناؤ چاہتے ہیں جس کے لیے ہم نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو چھ ،چھ کا فارمولہ دیا تھا۔
کیا اس بار بھی ہارس ٹریڈنگ کے خدشات ہیں؟
بلوچستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے مبصر ڈاکٹر عرفان احمد بیگ نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سن 1972 کے عام انتخابات کے بعد جب سینیٹ کے الیکشن ہوئے تھے وہ بہت شفاف تھے۔ اس دوران صرف پارٹی کے اچھے اور قابل سیاسی کارکنوں کو ٹکٹ دیے جاتے تھے۔
اُن کے بقول اس کے بعد ایک غلط روایت ڈالی گئی کہ پارٹی میں جو امیر سرمایہ دار لوگ تھے انہیں ہی سینیٹ کا ٹکٹ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔
عرفان بیگ کے بقول "بلوچستان میں یہ روایت اور بھی غلط ہوتی گئی اور لوگوں نے پارٹی کا خیال رکھنا چھوڑ دیا اور پیسوں سے ووٹوں کی خرید و فروخت شروع ہوئی۔"
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد سب سے کم ہونے کی وجہ سے یہاں ووٹ کا تناسب سب سے اہم ہو جاتا ہے اس حساب سے ، بقول ان کے،" یہاں ووٹ کی قیمت" زیادہ لگتی ہے۔
عرفان بیگ کے بقول سینیٹ الیکشن میں پیسوں کا لین دین اس حد تک بھی ہوا ہے کہ دوسرے صوبوں کے لوگ بلوچستان سےسینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔
کس جماعت سے کون اُمیدوار ہے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں بلوچستان سے 12 نشستوں کے لیے 32 امیدوار میدان میں ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام پاکستان، عوامی نیشنل پارٹی، جمہوری وطن پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی امیدواروں کے علاوہ آزاد امیداوار بھی قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔
سینیٹ الیکشن میں بلوچستان سے جنرل نشستوں پر 16، خواتین کی مخصوص نشستوں پر آٹھ، ٹیکنو کریٹس کی نشستوں پر چار جب کہ اقلیتوں کی ایک نشست پر چار اُمیدوار میدان میں ہیں۔