امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرانے کا مطالبہ

کمیٹی کی رپورٹ کا عکس

رپورٹ میں امریکی صدر کی پالیسی کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکی پالیسی افغانستان میں ناکام ہوگئی ہے اور افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جاسکتی۔

سینیٹ میں پاک امریکہ تعلقات سے متعلق پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کی رپورٹ متفقہ طور پر منظورکرلی گئی ہے۔

رپورٹ میں ایوان نے حکومت کو امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے قومی پالیسی وضع کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ مطالبہ کیا ہے کہ امریکی صدر کے بیان پر پاکستان میں تعینات امریکہ کے سفیر کو طلب کرکے دفترِ خارجہ میں وضاحت طلب کی جائے۔

بدھ کو سینیٹ میں قائدِ ایوان راجا ظفرالحق نے امریکی صدر کی دھمکیوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال اور پالیسی سے متعلق ایوانِ بالا کی کمیٹی کی رپورٹ سینیٹ میں پیش کی۔

رپورٹ میں امریکی صدر کی پالیسی کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکی پالیسی افغانستان میں ناکام ہوگئی ہے اور افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جاسکتی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا کردار اور زمینی حقائق کو نظر انداز کیا ہے۔

ایوان نے افغانستان سے پاکستان میں کیے جانے والے حملوں کو نظر انداز کرنے کو زیادتی قرار دیتے ہوئے افغانستان میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے وہاں پر موجود عناصر کے خلاف کاروائی کرنے کی سفارش کی ہے۔

ایوانِ بالا کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں دفترِ خارجہ کو پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے قومی پالیسی پیپر تیار کرنے، پاکستانی مؤقف کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے سفارت خانوں کو سرگرم کرنے اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی واضح کرنے کی ہدایات بھی دی ہیں۔

رپورٹ میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس فوری طلب کرنے اور بھارت کی سرحد پار دہشت گردی سے متعلق دستاویزات دوسرے ممالک کو بھجوانے کی سفارش کی گئی ہے۔

قرارداد کی منظوری کے موقع پر چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا کہنا تھا سینیٹ آف پاکستان نے امریکی صدر کی جانب سے بیان کا فوری نوٹس لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ قومی سلامتی کے معاملے پر متحد ہیں۔

قرارداد کی منظوری کے بعد سینیٹ اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔

امریکی صدر کی جانب سے جنوبی ایشیا خصوصاً افغانستان سے متعلق نئی پالیسی کے اعلان کے بعد سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل اس کمیٹی کا اجلاس تین روز تک جاری رہا تھا۔

اجلاس میں وزیرِخارجہ اور دفتر خارجہ کے دیگر اعلیٰ حکام نے ایوان کو بریفنگز دی تھیں اور حالیہ صورتِ حال میں پاکستان کے موقف کو بہترانداز میں سامنے لانے کے بارے میں مشاورت کی تھی۔