پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب میں بدھ کو توہینِ مذہب کے الزام میں سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں بینک افسر کے قتل پر ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واقعے کی ہر پہلو سے تفتیش کی جا رہی ہے اور ملزم کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ بدھ کی صبح خوشاب کے علاقے قائد آباد میں عمران حنیف نامی بینک افسر کو مبینہ طور پر توہین مذہب کا الزام لگا کر سیکیورٹی گارڈ نے قتل کر دیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خوشاب کے ضلعی پولیس افسر طارق ولایت نے بتایا کہ پولیس کو بدھ کی صبح یہ رپورٹ موصول ہوئی کہ ایک سیکیورٹی گارڈ نے بینک کے منیجر پر فائرنگ کی ہے۔
طارق ولایت کے مطابق ملزم کو موقع سے ہی گرفتار کر لیا گیا جو توہین مذہب کے خلاف نعرے لگا رہا تھا اور اس نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے اسی بنا پر بینک منیجر کو قتل کیا۔
طارق ولایت کے مطابق ملزم احمد نواز کو جب تھانے منتقل کیا گیا تو بڑی تعداد میں لوگ تھانے کے باہر جمع ہو گئے اور نقصِ امن کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ اُن کے بقول لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ملزم کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
طارق ولایت نے بتایا کہ مجمع چار سے پانچ ہزار کا تھا اور بظاہر اُنہوں نے تھانے کو گھیرے میں لے لیا تھا جس کے بعد علاقے کی اہم شخصیات، امن کمیٹی اور علما کی مدد سے مذاکرات ہوئے جس کے بعد لوگ منتشر ہوئے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی گارڈ اور بینک منیجر کا تعلق سنی مکتبۂ فکر سے ہے جب کہ بینک کے دیگر اسٹاف سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم ایک مقامی شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بینک مینجر اور اسٹاف کے درمیان بظاہر کوئی تناؤ نہیں تھا۔ مذکورہ سیکیورٹی گارڈ کو لیٹ آنے پر بینک منیجر نے ڈانٹ ڈپٹ کی تھی جس سے وہ ناخوش تھا۔
پولیس کے مطابق مقتول ملک عمران حنیف کی نماز جنازہ میں 1500 سے دو ہزار افراد شریک تھے جب کہ اس موقع پر کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
پاکستان میں توہینِ مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ اس سے قبل بھی توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت اس نوعیت کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔
مقتول عمران حنیف کے اہل خانہ پولیس کی ابتدائی تفتیش پر مطمئن ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد وہ اپنی آئندہ کی حکمت عملی طے کریں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ملک عمران حنیف کے بھائی محمد رضوان نے بتایا کہ اُن کے بھائی گزشتہ ایک سال سے قائد آباد میں بطور بینک منیجر فرائض سر انجام دے رہے تھے۔
محمد رضوان نے بتایا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ملزم احمد نواز نے پہلے سے ہی ان کے بھائی کو مارنے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔
SEE ALSO: سانحہ جوزف کالونی: ساون مسیح کی رہائی پر مکین خوفزدہ کیوں؟محمد رضوان ملزم کی جانب سے توہینِ مذہب کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
رضوان کے مطابق جیسے ہی صبح انہوں نے اپنے بھائی کو آفس کے لیے ڈراپ کیا تو اسی موقع پر انہوں نے فائرنگ کی آواز سنی جس کے بعد وہ واپس آئے تو بھائی کو زخمی حالت میں خون میں لت پت دیکھا۔
اس کے بعد وہ پہلے انہیں سول اسپتال اور پھر لاہور لے کر گئے جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئے۔
محمد رضوان کے مطابق ملک عمران غیر شادی شدہ تھے اور وہ مذہبی مجالس میں کثرت سے شرکت کرتے تھے۔ ان کے مطابق فرانس میں حالیہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد ان کے بھائی فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کے سلسلے میں ہونے والے احتجاج میں پیش پیش تھے۔
اُن کے بقول ملزم صرف اپنے آپ کو بچانے اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے توہینِ مذہب کا کارڈ کھیل رہا ہے۔