امریکہ میڈیا کی آزادی اور آزاد میڈیا کو مضبوط بنانے کے لیے لاکھوں ڈالر مہیا کر رہا ہے: اینٹنی بلنکن

امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے۔ 03 مئی2023

امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں صحافی گھیرے میں ہیں اور اس گھیرے یا محاصرے کے کئی انداز ہیں جن کا بھرپور اظہار روس میں امریکی صحافی ایون گیرشکووچ کی گرفتاری اور پھرقید میں ڈالے جانے سے ہوتا ہے۔

بلنکن نے یہ بات اخبار واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔

بلنکن نے کہا کہ انہوں نے ایون کی گرفتاری کے بعد براہِ راست روسی وزیرِ خارجہ سے اس بارے میں بات کی۔ ان پر واضح کیا کہ ایون کی رہائی کی کتنی اہمیت ہے اور یہ کہ انہیں وکیل تک رسائی دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے کہنے کے بعد ایون کو وکیل تک رسائی مہیا کی گئی۔

صحافیوں کی غلط اور بلا جواز گرفتاریوں کے خلاف امریکی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے بلنکن نے کہا کہ اس سلسلے میں امریکہ کی جانب سے لیونسن ایکٹ (Levinson Act ) کا نفاذ کیا گیا ہے جس کے ذریعے ان لوگوں یا حکام تک پہنچا جا سکتا ہے جو صحافیوں کو یا امریکی شہریوں کو غلط طریقے سے حراست میں لیتے ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت ان پر سفر کی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں یا ان کے اثاثے منجمد کیے جا سکتے ہیں۔

SEE ALSO: اقوام متحدہ کا آزادئ صحافت کا ایوارڈ، تین اسیر ایرانی خواتین صحافیوں کے نام

امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اگرچہ روس جیسے ملک نے یو کرین کے خلاف جارحیت کے باعث دنیا میں خود کو تنہا کر لیا ہے تاہم اس کے اقدامات اس کی تنہائی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ، ہمارے ملک میں مت آئیں۔۔۔یہاں کا سفر نہ کریں ورنہ آپ جو کوئی بھی ہیں۔۔آپ کو سڑک پر گھسیٹا جائے گا یا جیل میں ڈال دیا جائے گا۔

مسٹر بلنکن نے کہا کہ فی الوقت روس میں امریکی شہریت کا حامل کوئی صحافی موجود نہیں۔ 20 روسی ہیں جو امریکی میڈیا تنظیموں کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور اگر دنیا میں اکثریت نے روس جاکر رپورٹنگ سے انکار کر دیا تو دنیا سے روس کا رابطہ مزید کٹ جائے گا۔

صحافیوں کی مدد کے لیے امریکی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ امریکہ دنیا بھر میں ان صحافیوں کے لیے جدوجہد اور حکام پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے جنہیں دھمکیوں، جبر، ہراسانی، مقدمات اور نگرانی کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس کے لیے ایک ٹیکنالوجی فنڈ قائم کیا گیا ہے جس کے ذریعے صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو ایسی ٹیکنالوجی تک رسائی دی جا رہی ہے جو انہیں اس قابل بنائے کہ وہ نگرانی میں ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اور بیرونی دنیا کے ساتھ رابطہ رکھ سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک فنڈ ہتکِ عزت کے سلسلے میں بھی قائم کیا گیا ہے کیونکہ دنیا میں ایک کے بعد ایک ملک میں قانونی کارروائی کے ذریعے صحافیوں کا کام اور میڈیا اداروں کا کاروبار ختم کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ امریکہ نے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے ذریعے صحافی اور آزاد میڈیا ریاستی جبر اور دھمکیوں سے اپنے دفاع میں مدد لے سکتے ہیں۔ صحافی ذاتی طورپر اور سائبر سپیس پر اپنا تحفظ کر سکتے ہیں۔

مسٹر بلنکن نے کہا کہ امریکہ میڈیا کی آزادی اور آزاد میڈیا کو مضبوط بنانے اور نامساعد حالات میں بھی ان کا کاروبار جاری رہنے میں مدد کے لیے لاکھوں ڈالر مہیا کر رہا ہے اور دنیا بھر میں صحافیوں اور آزاد میڈیا کے ساتھ مہارت اور علم کی شراکت کے لیے 52 ملکوں کے اتحاد، میڈیا فریڈم کو ایلیشن میں اپنے وسائل اور معلومات مہیا کر رہا ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا کہ امریکہ کا مقصد نہ صرف اس اہم معاملے پر دنیا کو ہر روز توجہ دلانا اور دنیا کے ان ممالک کو رابطے میں لانا ہے جہاں صحافیوں سے کسی نہ کسی طریقے سے ناروا سلوک ہو رہا ہے بلکہ ہم واقعتاً کوشش کر رہے ہیں کہ صحافیوں اور آزاد میڈیا کو ایسے وسائل مہیا کیے جائیں جن کی مدد سے وہ مزاحمت کر سکیں اور اپنے کام کو پائیدار بنا سکیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان: میڈیا ہاوسز اور صحافیوں میں تقسیم، آزاد صحافت پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟

امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کے واشنگٹن پوسٹ کے لیے اس انٹرویو کی تقریب میں اس وقت ایک ہنگامی صورتِ حال پیدا ہو گئی جب حاضرین میں سے کوڈ پنک نامی تنظیم کے کچھ حامی اسٹیج پر آگئے۔ جنہیں سیکیورٹی اہل کاروں نے فوراً اسٹیج سے نیچے اتارا جب کہ وزیرِ خارجہ بلنکن انہیں تحمل سے کام لینے کی تلقین کرتے رہے۔

اس دوران حاضرین میں سے لوگ بلند آواز میں مطالبہ کرتے رہے کہ جولین اسانج کی حوالگی کا مطالبہ ختم کیا جائے اور یہ کہ جولین اسانج اور فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے بارے میں ایک بھی لفظ نہیں کہا گیا۔

پروگرام کے میزبان ، واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار ڈیوڈ اگنیشس کا کہنا تھا کہ ہم یہاں آزادی صحافت کا دن منانے کے لیے جمع ہوئے اور ہم نے اس کا ایک مظاہرہ بھی یہاں دیکھا۔