افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کا دوسرا دور منگل کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہو رہا ہے۔ امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ امن بات چیت کے اس دور کے دوران افغانستان میں قیام امن کی طرف ٹھوس پیش رفت ہو گی۔
دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا دوسرا دور ایسے وقت شروع ہو رہا ہے جب افغانستان میں تشدد کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اس پر بین الاقوامی برداری اور افغان حکومت نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان میں حالیہ تشدد کے واقعات میں کئی صحافی اور عام شہری بھی نشانہ بن چکے ہیں جب کہ افغان حکومت مسلسل تشدد میں فوری کمی اور جنگ بندی پر زور دی رہی ہے۔
زلمے خلیل زاد نے پیر کو دوحہ پہنچنے کے بعد اپنی متعدد ٹوئٹس میں فریقین پر زور دیا کہ وہ افغان عوام کے مفاد میں لچک کا مظاہرہ کریں اور جتنا جلد ممکن ہو بات چیت کے ذریعے افغانستان کے سیاسی مستقبل سے متعلق معاہدہ، تشدد میں فوری کمی اور جنگ بندی پر اتفاق کریں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں تشدد کی موجودہ سطح بشمول ہدف بنا کر ہلاک کرنے کے واقعات ناقابلِ قبول ہیں۔
خلیل زاد کے بقول جو تشدد کو جاری رکھنا چاہتے ہیں وہ امن عمل اور افغانستان کے مستقبل کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کی اعلیٰ کونسل برائے مفاہمت کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے بھی ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم پانچ جنوری کو شروع ہونے والے امن مذاکرات کے دوسرے دور میں شریک ہو گی۔ اُن کے بقول اس مذاکرتی ٹیم کو افغان حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے اور امن ایجنڈا طے کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔
قبلِ ازیں افغان صدر اشرف غنی نے حکومتی مذکراتی ٹیم کو افغان حکومت کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم آئین اور عوام کی خواہشات پر قائم رہتے ہوئے بین الافغان مذاکرات کو جاری رکھے گی۔
صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق صدر غنی نے یہ بات اتوار کو کابل میں حکومت کی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات کے دوران کہی۔
یاد رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ستمبر میں شروع ہونے والے مذاکرات کا پہلا مرحلہ کئی ہفتوں تک جاری رہا تھا جس میں فریقین نے بات چیت کا ایجنڈا طے کرنے اور مذاکرات کے قواعد و ضوابط پر اتفاق کیا تھا۔
ایک وقفے کے بعد فریقین ایک مرتبہ پھر دوحہ میں مذاکرات کریں گے۔
SEE ALSO: امریکی فضائی حملے جاری رہے تو پوری قوت سے جواب دیں گے: طالبانمبصرین کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا دوسرا مرحلہ پیچیدہ اور مشکل ہو گا۔ ایک طرف افغان حکومت کی ترجیح ملک میں تشدد میں کمی اور جنگ بندی ہے لیکن دوسری طرف طالبان افغانستان کے سیاسی مستقبل سے متعلق اپنے مؤقف پر اصرار کریں گے۔
افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ 12 ستمبر کو مذاکرات کے پہلے دور میں فریقین نے بین الافغان مذاکرات کا ایجنڈا طے کرنے کے لیے 21 نکات پر مشتمل قواعد و ضوابط پر اتفاق کیا تھا لیکن ابھی بات چیت کا ایجنڈا طے ہونا باقی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا دوسرا دور طویل ہو گا جس میں فریقین کے درمیان افغانستان کے سیاسی مستقبل، عبوری حکومت اور جامع جنگ بندی کے امور زیرِ بحث رہیں گے۔
اُن کے بقول مذاکرات کے دوران افغان حکومت کی ترجیح جنگ بندی ہو گی جب کہ طالبان ایجنڈے میں افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک سیاسی نظام چاہیں گے جس کی بنیاد شرعی اور اسلام اصولوں پر ہو۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا دوسرا دور طویل اور پیچیدہ ہو گا جس میں فریقین کے درمیان افغانستان کے سیاسی مستقبل، عبوری حکومت اور جامع جنگ بندی کے امور زیرِ بحث رہیں گے۔
بات چیت کے مجوزہ ایجنڈے کے بارے میں فریقین کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا لیکن تجزیہ کار رحیم اللہ کے بقول فریقین اس بارے میں ایک دوسرے کو اپنے مؤقف سے آگاہ کر چکے ہیں۔
رحیم اللہ کے بقول اس وقت طالبان پر امریکہ، پاکستان اور بعض بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے یہ دباؤ ہے کہ وہ جنگ بندی کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اگر بین الافغان مذاکرات کے دوران کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو طالبان اسی طرح اپنے وعدوں کا پاس کریں گے جس طرح دوحہ معاہدے کے تحت امریکی فورسز کے خلاف اپنے حملے روک دیے تھے۔
تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ طالبان ترجمان کا یہ بیان اس بات کا عندیہ ہے کہ اگر افغان حکومت ان کے بعض مطالبات مان لیتی ہے تو شاید وہ جنگ بندی اور تشدد میں کمی پر تیار ہو جائیں لیکن ان کے بقول فوری طور اس بات کا امکان کم ہے۔
امریکی نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے حال ہی میں پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق اس ملاقات کے دوران خطے میں امن و استحکام کے مشترکہ مقصد کے حصول کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔