|
پشاور -- پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے دو دن قبل اغوا کیے جانے والے لیفٹننٹ کرنل خالد امیر خان ان کے دو بھائیوں اور بھتیجے کی جلد از جلد رہائی کے لیے کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔
لیفٹننٹ کرنل کا ایک بھائی اسسٹنٹ کمشنر جب کہ دوسرا نادرا میں ہے۔
حکام اغوا کاروں کی جانب سے ان کے ساتھیوں کی فراہم کردہ فہرست میں شامل قید افراد کی تفصیلات جمع کر رہے ہیں۔
ابھی تک کسی بھی حکومتی ادارے یا عہدے دار نے اغوا کاروں کی جانب سے لیفٹننٹ کرنل خالد امیر اور ان کے تین قریبی رشتے داروں کی رہائی کے بدلے پیش کردہ مطالبات کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
ان چاروں افراد کو نامعلوم مسلح افراد نے بدھ کی شام اُس وقت اغوا کیا تھا جب وہ ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے والد کی تدفین کے بعد فاتحہ خوانی کے لیے آنے والے اہلِ علاقہ اور رشتہ داروں کے ساتھ ایک گھر میں تھے۔
باوثوق ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اغواکار جن کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) گنڈاپور گروپ سے ہے اپنے 20 ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ افراد مبینہ طور پر سیکیورٹی اداروں کی قید یا تحویل میں ہیں۔ کالعدم شدت پسند تنظیم کے ایک اہم ذرائع نے فہرست میں شامل ان 20 افراد کی تصدیق کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اغواکار تاوان کے لیے بھی بھاری رقم کا تقاضا کر رہے ہیں۔
اغوا کاروں نے لیفٹننٹ کرنل خالد امیر اور ان کے بھائی آصف امیر کے علیحدہ علیحدہ ویڈیو پیغامات جمعرات کی سہ پہر جاری کیے تھے۔
ویڈیو پیغامات جاری ہونے سے قبل سول اور سیکیورٹی اداروں کے عہدے داروں نے مغویوں کی بازیابی کے لیے کوششوں کے سلسلے میں شدت پسندوں کے ساتھ رابطے شروع کیے ہیں۔
اس سلسلے میں مشاورت اور صلاح مشورے بیک وقت اسلام آباد، پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری ہیں۔
ویڈیو پیغامات میں لیفٹننٹ کرنل خالد امیر اور بھائی آصف امیر نے حکومت سے طالبان کے مطالبات ماننے کی اپیل کی ہے۔
اغوا کاروں کی جانب سے فراہم کردہ فہرست میں اطلاعات کے مطابق سوات کے مسلم خان اور ملک محمود، باجوڑ کے مولوی عمر اور جنوبی وزیرستان کے لطیف محسود کے نام بتائے جاتے ہیں۔
مسلم خان کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان رہ چکے ہیں۔
لطیف محسود کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔
لطیف محسود کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہیں 2013 میں اس وقت پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے گرفتار کر لیا تھا جب وہ افغان حکومت کے کہنے پر افغان طالبان کے حلیف حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مذاکرات کے لیے پاکستان آئے تھے۔
ان کی گرفتاری پر اس وقت کے صدر حامد کرزئی نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان سوات کے سابق ترجمان مسلم خان اور اہم کمانڈر ملک محمود خان 2009 کے وسط میں فوجی آپریشن راہ راست کے وقت حراست میں لیے گئے تھے۔
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے مولوی عمر 2005 میں مہمند سے گرفتار ہوئے تھے۔
ٹی ٹی پی سے سے منسلک ایک اہم رہنما نے وائس آف امریکہ کے ساتھ رابطے میں اغوا کاروں کی جانب سے چار اہم اور سرکردہ کمانڈرز سمیت 20 افراد کی رہائی کے مطالبے کی تصدیق کی مگر انہوں نے فہرست میں شامل افراد کے نام نہیں بتائے۔
ایک سرکاری عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جرگہ ممبران مختلف ذرائع سے اغوا کاروں کے ساتھ رابطوں میں ہیں اور حکومت کی کوشش ہے کہ لیفٹننٹ کرنل خالد امیر کی بھائیوں اور بھتیجے کی بحفاظت بازیابی یقینی بنائی جا سکے۔