پاکستان کو 95 کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کے اسلحے کی فرخت

فائل

امریکی محکمہٴخارجہ کی قائم مقام ترجمان کے بقول، پاکستان کو اب بھی، دہشت گردی کا، ’سنگین مسئلہ درپیش ہے‘؛ اور ’یہی وجہ ہے کہ ہم اُن کی مدد کر رہے ہیں۔ ایسا کرنا، دراصل ہمارے اپنے قومی سلامتی کے مفاد میں ہے‘

ادارہ برائے دفاعی سلامتی اور تعاون کی ایک رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے، امریکی محکمہٴخارجہ نے کہا ہے کہ ’پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے داخلی مسئلے سے نبردآزما ہونے میں مدد دینے کے لیے، ہیلی کاپٹرز اور اُن کے آلات و پرزہ جات کی منظوری دی گئی ہے، جِن کی مالیت تقریباً 95 کروڑ، 20 لاکھ ڈالر ہے‘۔

یہ بات محکمہٴخارجہ کی قائم مقام ترجمان، میری ہارف نے بدھ کو ایک سوال کے جواب میں بتائی۔

ترجمان کے بقول، ’ہیلی کاپٹرز اور ہتھیاروں کے نظاموں کی یہ ممکنہ فروخت ملک میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں پاکستان کی فوج کی استعداد بڑھانے میں مدد دے گی‘۔

اُن سے پوچھا گیا تھا ’آیا یہ سچ ہے کہ پاکستان کو اسلحے کی فروخت کی گئی ہے، جس میں ہیل فائر میزائل اور ہیلی کاپٹر شامل ہیں‘۔

’ممکنہ فروخت‘ کے وضاحتی سوال پر، ترجمان نے کہا کہ ’ہاں۔ میرے خیال میں فی الواقع فروخت سے 30 روز قبل حکومت کی جانب سے کانگریس کو ایک باضابطہ اطلاع بھیجنا لازم ہے‘۔

ترجمان کا جواب اثبات میں تھا، جب اُن سے مزید یہ معلوم کیا گیا کہ کیا کانگریس کو باقاعدہ اطلاع روانہ کی گئی ہے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ اس معاملے کی مزید تصدیق زیادہ بہتر ہوگی۔

میری ہارف نے کہا کہ ’انسداد دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ کے پاکستان کے ساتھ بہت ہی قریبی تعلقات ہیں، جس کا جواز واضح ہے‘۔

اُنھوں نے بتایا کہ ’پاکستان کو اب بھی دہشت گردوں سے بہت ہی سنگین خطرہ درپیش ہے، جنھوں نے یا تو امریکہ یا پھر افغانستان میں امریکی فوج پر حملے کیے ہیں؛ جنھوں نے امریکہ سمیت مغرب کے خلاف منصوبے بنائے ہیں یا سازش کی ہے، جن کا تعلق خاص طور پر پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ہے۔ اس لیے، اب بھی پاکستان کو ایک سنگین مسئلہ درپیش ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہم اُن کی مدد کر رہے ہیں۔ ایسا کرنا، دراصل ہمارے اپنے قومی سلامتی کے مفاد میں ہے‘۔

اس سوال پر کہ کیا پاکستان نے ان ہتھیاروں کے حصول کی درخواست کی تھی، ترجمان نے کہا کہ اُن کے پاس فی الوقت اس معاملے میں مزید تفصیل موجود نہیں۔

خاتون ترجمان نے اس بات کو واضح کیا کہ ’یہ اسلحہ پاکستان کے داخلی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے ہے، تاکہ صاف الفاظ میں، وہ اپنے ملک کے اندر دہشت گردوں کے خلاف استعمال کرسکیں‘۔

تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ’امریکہ کے پاس اس بات کی تصدیق کے متعدد طریقہ کار موجود ہیں جن سے یہ پتا لگایا جائے کہ جن شرائط پر ہتھیار فراہم کیے گئے ہین، کیا یہ اُسی مقصد کے لیے استعمال ہوئے۔ یہ ایسی بات ہے جس پر ہم انتہائی گہرائی سے نظر رکھتے ہیں‘۔

ترجمان نے کہا ’یہ صرف اعتماد کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ دیکھنا مقصود ہوتا ہے کہ ہمارے ہتھیار کہاں گئے، اس کی پرکھ کرنا کہ یہ کس مقصد کے لیے استعمال ہوئے، اور ہمیں پورا اعتماد ہے کہ ہم ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’یہ حقیقت پر مبنی نہ ہوگا، اور یہ فرضی سی بات ہوگی‘۔ اُن سے پوچھا گیا کہ آیا امریکہ کی طرف سے دیے گئے یہ ہتھیار کہیں یمن میں تو استعمال نہیں ہوں گے۔