سائنس داں پلوٹو کا نعم البدل، ’نیا سیارہ‘ تلاش کرنے میں کامیاب؟

سائنس دانوں نے بتایا ہے کہ کائنات کی انتہائی وسعتوں میں ایک سیارہ موجود ہے، جو خلا میں کئی ایک چھوٹے سیاروں کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔ اُس کی کششِ ثقل کے اثرات بتاتے ہیں کہ یہ بہت ہی بڑی جسامت کا مالک ہے اور زمیں سے کم از کم 10 گنا بڑا ہے۔ یہ نظام شمسی کے ایک بعید سیارے، ’نیپچون‘ کی طرح بڑا سیارہ ہے

ہو سکتا ہے کہ نظامِ شمسی میں پلوٹو کی اہمیت کے بارے میں شاکی سائنس دانوں نے اِس کا متبادل تلاش کر لیا ہو۔

کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ علم ہیئیت کے ماہرین، مائیک براؤن اور کونسٹن ٹائن بتین نے اِس بات کا اشارہ دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُنھیں یقین ہے کہ ایک بہت بڑا سیارہ دریافت ہوچکا ہے، جو سورج کی کششِ ثقل کے دائرہٴ اثر سے بہت دور فلک کی وسعتوں پر جلوہ گر ہے۔
سائنس دانوں نے بتایا ہے کہ اُنھوں نے یہ سیارہ دیکھا نہیں، لیکن یہ بات طے ہے کہ انتہائی وسعتوں میں ایک سیارہ موجود ہے، جو خلا میں کئی ایک چھوٹے سیاروں کو اپنی کشش میں لیے ہوئے ہے۔ اُس کی کششِ ثقل کے اثرات بتاتے ہیں کہ یہ بہت ہی بڑی جسامت کا مالک ہے اور زمیں سے کم از کم 10 گنا بڑا ہے۔ یہ نظام شمسی کے ایک بعید سیارے، ’نیپچون‘ کی طرح بڑا سیارہ ہے۔

اُنھوں نے ابھی اِسے نام نہیں دیا، لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ بالکل موجود ہے۔ آئندہ چند سالوں میں ٹیلی اسکوپ کی مدد سے اُسے دیکھا جا سکے گا۔ یہ ممکنہ سیارہ اتنا دور ہے کہ سورج اِس کے مدار کا چکر 10000 سے زائد برسوں میں پورا کرتا ہے۔

تاہم، اس کی جسامت کا معاملہ تحقیق کاروں کے لیے ایک معمہ بنا رہا ہے۔ لیکن، اُنھوں نے بغیر دیکھے اِس کے وجود کا تعین کر لیا ہے۔

اِن دونوں تحقیق کاروں نے اِس بات پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ ’سیڈنا‘ جیسا چھوٹا سیارچہ مشکل مدار کی خطوط پر واقع ہے، جسے براؤن نے ہی دریافت کیا تھا۔

براؤن نے بتین سے التجا کی ہے کہ کائنات کے معمے کے حل میں مدد دی جائے، چونکہ علم الاعداد میں جو بات نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے وہ یہ کہ ’سیڈنا‘ کسی بہت بڑے سیارے کے ساتھ ساتھ فلک کی وسعتوں میں دیگر کئی چھوٹے سیارچوں کی کشش ثقل پر دلیل دیتا ہے۔۔ جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارے نظام شمسی کی تاریک ترین سرحدوں میں واقع ہے۔

صرف براؤن ہی سیاروں کی تلاش کے شعبے سے وابستہ نہیں، وہ علمی بنیاد پر اُن کی نفی کرنے کا بھی شہرہ رکھتے ہیں۔

وہ براؤن ہی تھے جنھوں نے ’سیڈنا‘ کا چھوٹا سیارہ؛ اور ’ایرس‘ دریافت کیا، جو دونوں ہی پلوٹو سے بڑی جسامت رکھتے ہیں؛ جس کے نتیجے میں 2006ء میں فلکیات کے بین الاقوامی ادارے کو ’سیاروں‘ کی نئی درجہ بندی کرنی پڑی تھی۔

پلوٹو کے ساتھ ساتھ ’ایرس‘، ’سیریس‘ اور چند دیگر سیارے جو اس سے قبل ثابت نہیں ہوئے تھے، اُنھیں سیارچے کا درجہ دیا گیا تھا۔ تاہم، ماہرین ہیئیت نے کہا ہے کہ یہ نئی دریافت اتنی وزنی ہے جسے سیارے کی حقیقی دریافت مانا جائے گا۔


براؤن اور بتین کو یقین ہے کہ اُنھوں نے یہ سیارہ دریافت کر لیا ہے۔ لیکن، جب تک ٹیلی اسکوپ سے اس کا ثبوت نہ ملے، ابھی یہ مفروضہ ہی ہے۔

ایسا نہیں کہ خیالی گھوڑے دوڑانے والوں کو روکا جاسکے گا، جو ’نبیرو‘ نامی ایک خیالی سیارے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ یہ چند ہزار سالوں کے بعد ہی زمین پر دیکھا جاتا ہے۔

لیکن، یہ نیا سیارہ، جسے فی الحال ’پلانیٹ ایکس‘ کا نام دیا گیا ہے، ’نیپچون‘ کے مقابلے میں سورج سے سات گُنا فاصلے پر ہے، اِس لیے فی الحال، کوئی حتمی دعویٰ نہیں بنتا۔

تاہم، جیسا کہ نئی سائنس کے معاملے پر ہوا کرتا ہے، جب تک کوئی حتمی تعین ہو، تحقیق کاروں کے حساب کتاب کو فلکیات کے معیار کے علمی پیمانے پر ڈالا جائے گا۔ دریں اثنا، اب بہت سے ٹیلی اسکوپ مزید ثبوت تلاش کرنے کی تگ و دو میں ہیں، جن کا نتیجہ کائنات کی وسعتوں میں مزید نئے سیاروں کی تلاش پر منتج ہوسکتا ہے۔