ایک شہزادی سے ملاقات ۔۔۔

  • سارہ زمان
’ہم سب غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ ہمارے ملک میں ہمارے تحفظ کے لیے کوئی قوانین نہیں اور نہ ہی ہمارے پاس آئین ہے‘
شہزادی کا خیال آتے ہی ذہن میں ہیرے جواہرات، فرش پر دور تک پھیلے طویل لباس اور آس پاس گھومتی کنیزوں یا آج کے دور میں اسسٹنٹ کہلانے والی خواتین کا خیال آتا ہے جو شہزادی کے ارد گرد گھیرا ڈال کر رکھتی ہیں۔ اس لیئے جب مجھے سعودی شہزادی بسمہ بنت سعود سے ملاقات کا موقع ملا تو میں وی او اے کے کانفرنس روم میں اپنے شناختی کارڈ، وی او اے کے سیکورٹی کارڈ اور اپنے پریس آئی ڈی کارڈ کےساتھ داخل ہوئی تاکہ شہزادی کے سیکورٹی اہلکاروں اور ان کی متعدد اسسٹنٹس کو یہ یقین دلا سکوں کہ میں وہی ہوں جو میں کہہ رہی ہوں کہ میں ہوں۔

لیکن جب شہزادی کانفرنس روم میں داخل ہویئں تو مجھے اپنے ذہن میں بنے شاہی خاندانوں کے خاکے میں کچھ لمحوں کے لیئے دراڑیں پڑتی محسوس ہویئں۔ سعودی عرب کے شاہ سعود بن عبدالعزیز السعود کی ایک سو پندرہویں اولاد کے آگے پیچھے نہ تو سیکورٹی اہلکاروں کی سیسہ پلائی دیوار تھی اور نہ ہی ان کے کئی گز لمبے لباس کو سنبھالنے والی خواتین کا جھرمٹ۔ ڈیزائنر پینٹ سوٹ، ہینڈ بیگ اور سر پر ڈھیلا سا سکارف پہنی ہوئی شہزادی کے ساتھ تھی صرف ایک نوجوان اسسٹنٹ!

بسمہ بنت سعود سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی بھتیجی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک صحافی اور کاروباری خاتون بھی، جو اب اپنے ملک میں اصلاحات لانے کی بات کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے ملک میں مرد اور خواتین دونوں ہی غلامی کی زندگی جی رہے ہیں کیونکہ وہاں قوانین نہیں بنائے جاتے بلکہ شاہی احکامات جاری کیے جاتے ہیں جو ہر ہفتے بدل جاتے ہیں۔ ملک کا کوئی آیئن نہیں جس کی روشنی میں قوانین تیار کیے جا سکیں۔

تو کیا بسمہ کچھ دیگر عرب ملکوں کی طرح اپنے ملک میں بھی تبدیلی کی بہار دیکھنا چاہتی ہیں؟ کیا وہ انقلاب لانے کی تیاری کر رہی ہیں؟ ہر گز نہیں۔ بسمہ شاہ عبداللہ کی حامی ہیں اور ان کے اقتدار کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتیں۔ ان کے خیال میں انقلاب میں خون بہتا ہے اور املاک کو نقصان پہنچتا ہے اور ’کوئی نیا نظام کسی پرانی حکومت کی دھجیاں اڑا کر نہیں بنایا جا سکتا۔‘ ان کا مشورہ یہ ہے کہ ملک میں سیکورٹی، آزادی، برابری اور تعلیم کے اصولوں کو بنیاد بنا کر آیئن مرتب کیا جائے۔ جس کی روشنی میں پھر مختلف قوانین تیار کیئے جایئں۔اور ان بد وعنوان وزیروں اور مشیروں کو ہٹایا جائے جو اپنے اقتدار کی حفاظت کے لیئے قوم کو محکوم بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔

دو ہزار گیارہ میں جب عرب سپرنگ کی ہوا چلی تو شاہ عبداللہ نے بھی اپنی رعایا کے لیئے ستر ارب ڈالر کے امدادی پیکج اور ساٹھ ہزار ملازمتوں کا وعدہ کیا۔ ساتھ ہی خواتین کو دو ہزار پندرہ کے میونسپل انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی اور شوری کونسل میں خواتین کو مامور کرنے کا وعدہ بھی کیا جسے حال ہی میں انہوں نے نبھایا۔ لیکن بسمہ کہتی ہیں کہ یہ تمام اقدامات مسئلے کا حل نہیں بلکہ اسے چھپانے کی ایک کوشش ہیں۔ تاہم ان کے خیال میں اس میں بادشاہ کا کوئی قصور نہیں۔ غلطی ان کے وزیروں اور مشیروں کی ہے جو انہیں غلط مشورے دے رہے ہیں اور ان کے سامنے لوگوں کے حالات کی صحیح تصویر پیش نہیں کر رہے۔

اگر شاہ عبداللہ اپنے ملک کے حالات سے بخوبی واقف نہیں تو کیا وہ یہ جانتے ہیں کہ سعودی عرب کو دیگر مسلم مماک کے عوام کس طرح دیکھتے ہیں؟ پاکستان کی ہی مثال لے لیجیئے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک سعودی طرز لباس، رہن سہن اور سوچ ہی زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ ہیں اور دوسری طرف ہیں وہ لوگ جن کی نظر میں پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینے میں سعودی عرب سے آنے والی سوچ اور رقم ذمے دار ہیں۔ بسمہ کے خیال میں سعودی عرب کو مذہب نہیں اپنی ثقافت کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا چاہیئے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس سجد نبوی ہے اور حرم شریف ہے جس کی جانب رخ کر کے کروڑوں لوگ روزانہ عبادت کرتے ہیں۔ہمیں ایک مذہبی پلیٹ فارم نہیں بننا چاہیئے، ہمیں تمام فرقوں اور اقوام کے لیئے ہونا چاہیئے۔ سعودی عرب کو کسی ایک کا نہیں بلکہ سب کا ہونا چاہیئے۔‘ ان کے مطابق مذہب نہیں بلکہ مختلف ممالک کے معاشی مفاد ہیں جن کے ہاتھوں میں لوگ کھیل رہے ہیں۔

بسمہ بتاتی ہیں کہ تبدیلی کا ان کا پیغام ان کے خاندان کے بہت سے لوگوں کو پسند نہیں لیکن کچھ رشتے دار ہیں جو ان کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔ اور شاہ عبداللہ نے بھی انہیں اب تک روکا نہیں۔ لیکن ملک کو آیئن دینے کا کوئی وعدہ بھی نہیں کیا۔

بسمہ بنت سعود کی باتوں سے یہ اندازہ تو ضرور ہوا کہ وہ ان پابندیوں کو ہٹانا چاہتی ہیں جو ان کے ملک میں بہت سی عورتوں کا نصیب ہیں۔ وہ اپنا اکثر وقت لندن میں اپنے بچوں کے ساتھ گزارتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ سعودی عرب ایک روشن خیال ملک کے طور پر دنیا میں اپنی جگہ بنائے۔ لیکن بسمہ بنت سعود سے ملاقات کے بعد سے میں یہ سوچ رہی ہوں کہ ایک نظام مضبوطی سے قائم بھی رہے اور اس میں بنیادی سطح پر تبدیلیاں بھی آ جایئں۔ یہ خاکہ زہن میں بنانا شاید اتنا مشکل نہیں لیکن اسے حقیقت کا روپ دینے کا سوچیں تو اس میں جو دراڑیں نظر آتی ہیں کیا بسمہ بھی وہ دیکھ رہی ہیں؟