سعودی عرب کے ریسٹورنٹس اور کیفے میں خواتین اور غیر شادی شدہ مردوں کے لیے الگ الگ داخلی دروازے بنانے کی پابندی ختم کر دی گئی ہے۔
حکام اس اقدام کی وجہ معاشرتی پابندیوں میں آسانی کو قرار دے رہے ہیں۔
سعودی عرب میں دینی معاملات کی نگرانی پر مامور محکمۂ پولیس کی جانب سے ہوٹلوں، ریستورانوں اور کیفے پر دہائیوں سے مردوں اور خواتین کے لیے الگ الگ دروازے بنانے کی پابندی عائد تھی۔ اس پابندی کا مقصد محرم اور نا محرم مرد و خواتین پر، خاص کر نوجوانوں پر نظر رکھنا اور ان پر کنٹرول رکھنا بتایا جاتا تھا۔
اتوار کو ٹوئٹر پر وزارتِ بلدیات اور دیہی امور نے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ ریسٹورینٹس پر عائد کئی پابندیوں کو ختم کر رہے ہیں جس میں ایک غیر شادی شدہ مردوں اور خواتین کے لیے علیحدہ داخلی دروازے بنانے کی شرط بھی شامل ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ ریستورانوں میں مرد اور خواتین ایک ساتھ بیٹھ سکیں گے یا وہ پابندی برقرار رہے گی۔
اس وقت سعودی عرب میں خواتین، فیملیز اور مردوں کے لیے الگ الگ پورشنز بنائے جاتے ہیں۔ فیملی پورشن میں انجان مردوں کا داخلہ منع ہے۔
حالیہ برسوں میں سعودی عرب کے قوانین میں مردوں اور خواتین کے حوالے سے سخت اصولوں میں نرمی کی جا رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہوٹلوں یا ریسٹورنٹس کے حوالے سے کئی قوانین پر اب بھی خاموشی سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔
نئے فیصلوں اور سخت اقدامات میں نرمی برتنے پر نوجوان سعودی شہری مسرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن بعض قدامت پسندوں کی جانب سے ان اقدامات کو مسترد کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں اور سعودی عرب کو ایک اعتدال پسند، اور کاروباری لحاظ سے موزوں ریاست کی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔
حالیہ چند مہینوں کے دوران انہوں نے مذہبی رہنماؤں کی سخت ترین طاقت کو ایک طرف کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
انہوں نے نئی پالیسیاں اپناتے ہوئے مردوں اور عورتوں کے لیے موسیقی کی تقریبات میں شرکت پر پابندی ختم کی ہے۔ ملک میں سینما ہالز اور خواتین کے گاڑی چلانے پر عائد پابندیاں بھی ختم کر دی گئی ہیں۔