سعودی عرب کی حکومت نے دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت پانے والے 37 قیدیوں کے سر قلم کر دیے ہیں۔
سعودی عرب میں تین سال کے عرصے کے دوران ایک ہی روز اتنی بڑی تعداد میں قیدیوں کے سر قلم کیے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
اس سے قبل دو جنوری 2016ء کو سعودی حکام نے ایک ساتھ 47 افراد کے سر قلم کیے تھے جنہیں دہشت گردی سے متعلق مختلف مقدمات میں موت کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
ان 47 افراد میں معروف شیعہ عالمِ نمر النمر بھی شامل تھے جن کا سر قلم کیے جانے پر پاکستان اور ایران سمیت کئی ملکوں میں سعودی عرب کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے۔
پرتشدد مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے میں توڑ پھوڑ بھی کی تھی جس کے بعد سعودی عرب اور ایران کے تعلقات سخت کشیدہ ہو گئے تھے۔ واقعے کے بعد سے ایران میں سعودی سفارت خانہ تاحال بند ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے دعویٰ کیا ہے کہ منگل کو جن افراد کے سر قلم کیے گئے ہیں ان میں بھی اکثر شیعہ تھے۔
واشنگٹن میں 'گلف انسٹی ٹیوٹ' کے نام سے تحقیقاتی ادارہ چلانے والے سعودی تارکِ وطن علی احمد کے مطابق وزارتِ داخلہ نے سزا پانے والے جن افراد کی فہرست دی ہے ان میں سے ان کی تحقیق کے مطابق 34 افراد شیعہ ہیں۔
علی احمد کے بقول سعودی عرب کی تاریخ میں ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کے سر قلم کرنے کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے جو ان کے بقول ایران کے لیے ایک پیغام بھی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ پیر کو جن افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا ہے ان میں سے بیشتر شیعہ مرد تھے۔
ایمنسٹی نے الزام لگایا ہے کہ بیشتر افراد کو ایسے جعلی مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں جو انصاف کے بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ان افراد پر تشدد کر کے ان سے اعترافِ جرم کرایا گیا تھا۔
ایمنسٹی کے مطابق جن افراد کے سر قلم کیے گئے ہیں ان میں سے 11 پر ایران کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام تھا جب کہ 14 افراد کو شیعہ اکثریتی علاقوں میں حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے کی پاداش میں سزائے موت دی گئی۔
سعودی وزارتِ داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جن افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا وہ شدت پسند نظریات رکھتے تھے اور انہوں نے مملکت میں فرقہ واریت اور بدامنی کو ہوا دینے کے لیے دہشت گرد گروہ قائم کر رکھے تھے۔
بیان کے مطابق تمام افراد پر ریاض کی خصوصی عدالت میں شفاف طریقے سے مقدمات چلائے گئے تھے جو سعودی عرب میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لیے قائم اعلیٰ ترین عدالت ہے۔
وزارت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان افراد پر آتش گیر مواد سے سیکورٹی اہل کاروں پر حملہ کرنے، انہیں قتل کرنے اور ملک کے مفادات کے خلاف دشمن تنظیموں سے تعاون کرنے کے الزامات ثابت ہوئے تھے۔
بیان کے مطابق سزائے موت پانے والے ایک سنی شدت پسند کا سر قلم کیے جانے کے بعد اس کی سربریدہ لاش کو مصلوب بھی کیا گیا تاکہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سر قلم کیے جانے کی کارروائیاں ریاض، مکہ اور مدینہ سمیت کئی شہروں میں انجام دی گئیں۔