سعودی عرب نے انسداد دہشت گردی کی جنگ کے لیے 34 ملکوں پر مشتمل نیا اسلامی فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا ہے۔
اس اتحاد میں پاکستان بھی شامل ہے۔
منگل کو سرکاری خبر رساں ادارے "سعودی پریس ایجنسی" میں شائع ہونے والے بیان میں بتایا گیا کہ اس اقدام کے تحت فوجی آپریشنز میں معاونت کے لیے ریاض میں ایک آپریشن سنٹر قائم کیا جائے گا۔
بیان کے مطابق دہشت گردی "انسانی وقار اور حقوق خصوصاً جینے اور تحفظ کے حق کی سنگیین خلاف ورزی ہے" اور یہ کہ "دہشت گردی و بدعنوانی کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔"
سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ (اس اتحاد کی) توجہ کسی ایک دہشت گرد پر مرکوز نہیں ہوگی۔"
"آج بہت سے ممالک ہیں جنہیں دہشت گردی کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر عراق و شام میں داعش ہے، صنعا میں دہشت گردی، یمن میں، لیبیا، مالی اور نائیجیریا میں، پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ اور یہ صورتحال تقاضاً کرتی ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے ٹھوس کوشش کی جائے۔ کسی شک کے بغیر یہ کوششیں مربوط ہوں گی۔"
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستانی قانون سازوں نے دہشت گردی کے خلاف اسلامی ممالک کے اتحاد کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور سینیٹ کے موجودہ رکن رحمٰن ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ اقدام وقت کی ضرورت تھا۔
سینیٹر لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقیوم کہتے ہیں کہ دنیا میں جب کہیں دہشت گردی ہوتی ہے تو انگلیاں مسلمان ممالک کی طرف اٹھتی ہیں۔ اُن کے بقول دہشت گردوں کے خلاف اس اتحاد سے دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ اسلامی ممالک اس بارے میں سنجیدہ ہیں۔
خاتون رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کہتی ہیں کہ مسلمان کو آپس کے تنازعات بھی ختم کرنے چاہیں۔
اس نئے فوجی اتحاد میں اردن، بحرین، ترکی اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں جو کہ امریکہ کی زیر قیادت شام میں داعش کے خلاف فضائی کارروائیوں میں بھی شریک ہیں۔
دیگر شریک ملکوں میں تیونس، لبنان، لیبیا، مصر، پاکستان، بنگلہ دیش، ملائیشیا کے علاوہ سوڈان، صومالیہ، مالی اور نائیجیریا سمیت بعض مختلف افریقی ملک بھی شامل ہیں۔
سعودی عرب کے بیان میں مزید بتایا گیا کہ انڈونیشیا سمیت بعض اسلامی ملکوں نے اس میں اپنے "تعاون" کا اظہار کیا ہے۔