پشاور شہر میں اشرف روڈ کی مصروف ترین فوڈ اسٹریٹ میں رات کے 10 بجے کا وقت ہے۔ لگ بھگ 55 سالہ رحمت اللہ فٹ پاتھ پر ایک بند دکان کے سامنے کڑاہی گوشت کا ڈھابہ چلا رہے ہیں۔
ان کے آس پاس لوگ جمع ہیں، لیکن ماسک کسی نے بھی نہیں پہنا۔ خود رحمت اللہ نے ماسک اس لیے پہنا ہے کہ دھویں سے بچ سکیں۔
رحمت اللہ کہتے ہیں کہ "میں کئی سالوں سے یہاں کام کر رہا ہوں۔ یہاں لوگوں کی آمد کم نہیں ہوئی ہے۔ کرونا کے دنوں میں لوگوں کا رش مزید بڑھ گیا ہے۔"
اُن کے بقول لوگ نہ صرف اس فوڈ اسٹریٹ کا رُخ کر رہے ہیں بلکہ ہجوم میں بیٹھ کر کھانے سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بہت کم لوگ ہی ماسک پہنتے ہیں۔
رحمت اللہ کے ساتھ کام کرنے والے عمر نامی نوجوان سے جب میں نے پوچھا کہ آپ نے ماسک کیوں نہیں پہنا؟ تو انہوں نے فوراً جیب سے ماسک نکال کر پہنا اور کہا کہ ماسک تو ہے میرے پاس۔
زیادہ تر لوگوں سے مل کر مجھے یہی دیکھنے کو ملا کہ وہ ماسک پہنتے نہیں ہیں لیکن پاس رکھتے ضرور ہیں اور یہ جان کر بھی حیرت ہوئی کہ وہ کرونا کے خطرے سے واقف ہیں اور ماسک کی اہمیت بھی سمجھتے ہیں۔
یہاں اس فوڈ سٹریٹ میں آئے مظہر نامی ایک گاہک خود صحت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ماسک کے بغیر یہاں ہجوم میں کھڑے تھے۔
اُن کے بقول "میں ہر دوسرے ہفتے یہاں آتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ ماسک پہننا لازمی ہے۔ میں ماسک پہنتا بھی ہوں۔، لیکن اس وقت یہاں دھویں میں میرا سانس بند ہو رہا ہے اس لیے نہیں پہنا۔"
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پشاور میں کرونا کیسز مثبت آنے کی شرح ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ شہر میں کرونا کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
گزشتہ اتوار کو کرونا کے باعث سات افراد جان کی بازی ہار گئے۔ وبا کے آغاز کے بعد سے صوبہ خیبر پختونخوا میں ہلاکتوں کی تعداد 1839 تک پہنچ گئی ہے اور صوبائی دارالحکومت میں وائرس سے 927 اموات ہوئی ہیں۔
پشاور کے دوسرے مصروف ترین بازاروں میں سے ایک صدر بازار میں بھی دن رات رش رہتا ہے۔ یہاں کپڑے، جیولری، کھانے پینے کی متعدد دکانیں ہیں۔ یہاں ایک جوس کی دکان پر بے انتہا رش دکھائی دیا۔ لوگ مختلف پھلوں کے تازہ جوس پینے کے لیے بے حد نزدیک کھڑے تھے۔کہیں بیچ میں سے آواز آئی "یہ کرونا ورونا کچھ نہیں جوس پیو صحت مند رہو۔"
یہیں اس بازار میں بڑی بڑی دکانوں کے باہر لکھا ہے "ماسک نہیں پہنا تو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔" لیکن دکان کے سیکیورٹی گارڈز اور اندر کام کرنے والوں نے خود ماسک نہیں پہنا۔
یہاں شامی روڈ کی ایک مقامی بیکری کے باہر بھی یہی لکھا ہے جب کہ لوگ بغیر ماسک پہنے اندر جا رہے تھے۔ جب میں نے کاؤنٹر پر موجود شخص سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو بغیر ماسک کے اندر کیوں جانے دے رہے ہیں تو ان کہنا تھا کہ ہم بے بس ہیں۔
مذکورہ شخص کا کہنا تھا کہ "یہاں دن میں سیکڑوں لوگ آتے ہیں۔ کس کس کو روکیں گے۔ ان کا بھی قصور نہیں ماسک 10 سے 20 روپے کا ہے۔"
زیادہ تر لوگوں سے یہ شکایت سننے کو ملی کہ ماسک مہنگے ہیں۔ لیکن میں نے مشاہدہ کیا کہ زیادہ تر خواتین نے ماسک پہن رکھا تھا۔ چاہیے وہ اسٹوڈنٹس ہیں یا کسی بھی عمر کی خاتون۔ میں نے کسی کو ماسک کے بغیر نہیں دیکھا۔ ایک خاتون نے بہت دلچسپ بات کہی۔
اُن کے بقول "خواتین یہاں باہر نکلتے ہوئے تو ویسے بھی پردہ کرتی ہیں۔ تو یہ شاید ان کے لیے پردے کا متبادل بھی ہے۔"
پاکستان کی وفاقی حکومت نے نو دسمبر 2020 کو وائرس پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں مختلف پابندیاں عائد کیں۔ حکومت نے عوامی مقامات پر ماسک کو لازمی قرار دے دیا ہے بڑے بڑے اجتماعات کو محدود کر دیا گیا ہے۔ ان ڈور شادیوں پر پابندی عائد کر دی ہے، مزار، سنیما گھر اور تھیٹر بھی بند ہیں جب کہ سرکاری اور نجی دفاتر کے عملے کو گھر سے کام کی پالیسی اپنانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
لیکن ماسک نہ پہننے سے متعلق یہ صورتِ حال اور یہ رویے ملک کے دیگر بڑے شہروں لاہور یا اسلام آباد میں بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اگر آپ کسی سے ملنے جائیں اور آپ نے ماسک پہنا تو لوگ برا مناتے ہیں یا اگر کوئی آپ کے گھر مہمان ائے اور آپ انہیں سینیٹائزر پیش کریں۔ تو وہ اسے اپنی بے عزتی خیال کرتے ہیں اور سمجھیں کہ ٓآپ نے ان کی ناراضگی مول لے لی۔
ایک صاحب نے کہا "جو قسمت میں ہوتا ہے وہی ہو گا، احتیاط کر کے کیا ملے گا۔"
لیکن دوسری جانب پشاور کے سرکاری دفاتر کے اہلکار ماسک باقاعدگی سے پہنتے ہیں اور عملے کو سخت ہدایات دیتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ جن لوگوں نے کرونا کو قریب سے دیکھا ہے وہ احتیاطی تدابیر کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔ مجھے ایک ایسے ہی خاندان سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا۔
ان کے خاندان کے تقریباً سات افراد، خانساماں اور ڈرائیور بیک وقت کرونا کا شکار ہو گئے تھے۔ اس خاندان کے ایک بزرگ کرونا کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ گھر کے باقی افراد اگرچہ صحت یاب ہو چکے ہیں لیکن وہ گھر میں رہتے ہوئے بھی ماسک پہنتے ہیں۔