روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف پاکستان کے دو روزہ سرکاری دورے پر منگل کو اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ پاکستانی دفترِ خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے روسی ہم منصب کا ایئر پورٹ پر استقبال کیا۔
روسی وزیرِ خارجہ بھارت کا دورہ مکمل کر کے پاکستان پہنچے ہیں کسی بھی روسی وزیرِ خارجہ کا نو سال بعد یہ پہلا دورۂ پاکستان ہے جسے اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق روسی وزیرِ خارجہ لاروف بدھ کو پاکستان کی وزارتِ خارجہ میں پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے علاوہ پاکستان اور روس کے درمیان وفود کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں روسی وفد کی قیادت کریں گے۔
پاکستانی حکام کے مطابق دورۂ پاکستان کے دوران روسی وزیرِ خارجہ افغان امن عمل سمیت خطے کی مجموعی صورتِ حال اور پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھانے کے معاملات پر تبادلۂ خیال کریں گے۔
روسی وزیرِ خارجہ کی آمد سے قبل اپنے ویڈیو پیغام میں وزیرِ خارجہ قریشی نے کہا کہ روس خطے کا ایک اہم ملک ہے اور پاکستان اور روس کے تعلقات ایک نیا رخ اختیار کر رہے ہیں اور باہمی تعلقات میں بھی بہتری آ رہی ہے۔
وزیرِ خارجہ کے بقول روسی وزیرِ خارجہ کے دورے کے دوران نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن، دفاعی تعاون، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے بارے میں بھی تبادلۂ خیال ہو گا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کراچی میں قائم اسٹیل مل کی بحالی کے لیے بھی روسی سرمایہ کاری کے امکان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ 70 کی دہائی میں روس نے پاکستان کو کراچی اسٹیل مل قائم کرنے میں مدد کی تھی۔ لیکن گزشتہ کئی سالوں سے خسارے کی وجہ سے کراچی اسٹیل مل بند پڑی ہے۔
بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سال سے پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری کا عمل جاری ہے۔ ان کے بقول روس جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک بھارت اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
ان کے بقول ایک طرف خطے میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کی وجہ سے بھارت امریکہ کے زیادہ قریب ہے لیکن روس بھی جہاں بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو خاص اہمیت دیتا ہے ۔وہیں وہ پاکستان کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کا خواہاں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور روس کے تعلقات سرد جنگ کے دوران تناؤ کا شکار رہے ہیں۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ ماسکو اور نئی دہلی کے نہایت قریبی دفاعی تعلقات کے باوجود پاکستان روس کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات کو مزید فروغ دینے کا متمنی ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول پاکستان کے دفاعی سازو سامان کا زیادہ حصہ یورپی ممالک اور امریکہ سے خریدا گیا ہے لیکن ان کے بقول پاکستان، روس سے بھی جنگی سازوسامان خریدنے میں دلچسپی لے سکتا ہے۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باوجود کسی تنازع میں نہیں اُلجھنا چاہے گا۔
ان کے بقول پاکستان خطے کے اقتصادی رابطوں کے لیے ایک پل کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے جب کہ بھارت کے ساتھ ہونے والی پیش رفت کا تعلق بھی اسی بات سے ہے۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ روس پاکستان اور بھارت کے درمیان فعال تعلقات کا خواہاں ہے تاکہ خطے میں امریکہ کے اثر وروسوخ کو کم کیا جا سکے۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق روس اور چین کی کوشش ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کو زیادہ مؤثر بنایا جائے جس میں دیگر ممالک کے علاوہ بھارت اور چین بھی شامل ہیں اور اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات بھی بہتر ہوں۔
دوسری جانب اقتصادی امور کے ماہر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات استوار کرنے کے امکانات ضرور موجود ہیں لیکن ان کے بقول شاید دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کے حجم میں اضافے کا فوری کوئی امکان نہیں ہے۔
ان کے بقول، گزشتہ کئی سالوں تک پاکستان روس کے درمیان باہمی دو طرفہ تجارت کا حجم لگ بھگ 50 سے 60 کروڑ ڈالر ہی تھا۔
پاکستان بزنس کونسل کے اعدادو شمار کے مطابق، دو ہزار چودہ اور دو ہزار پندرہ کے دوران روس کے اندرونی حالات اور بعض بین الاقوامی پابندیوں کے عائد ہونے کے بعد روس کی خارجہ پالیسی میں ایشیائی ملکوں سے باہمی معاشی مفادات پر مبنی تعلقات قائم کرنے کی اہمیت بڑھ گئی۔
2015 میں پہلی مرتبہ پاکستان اور روس کے درمیان تجارت کا حجم38ارب ڈالر تک چلا گیا تھا ، جب روس نے پاکستان سے اشیائے خوردونوش، ریڈی میڈ کپڑے، تازہ سبزیاں اور کھانے کے سیریل امپورٹ کرنے شروع کئے۔ اس دوران روس نے پاکستان کو 95اعشاریہ سات ملین ڈالر کا کاغذ، گتہ، سبزیاں، فولاد ، سٹیل، غیر قدرتی کیمیکلز اور مشینری ایکسپورٹ کیا تھا.
وائس آف امریکہ کے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال کے دوران پاکستان اور روس کے درمیان 790 ملین ڈالر کی تجارت ہوئی، جو اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 46 فیصد زیادہ تھی، کیونکہ پاکستان نے اندرون ملک گندم کی قلت دور کرنے کے لئے روس سے ایک بڑی مقدار میں گندم درآمد کی تھی۔