نرم لہجہ اپناتے ہوئے، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس ایک مشترکہ ایجنڈے پر امریکہ کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں ہے۔
ہفتے کے روز ’روسیا ون ٹی وی چینل’ پر خطاب میں، مسٹر پیوٹن نے کہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر متعدد مسائل پر نااتفاقی کے باوجود، کئی معاملات میں دونوں ملکوں کے یکساں مفادات بھی ہیں۔
صدر پیوٹن نے کہا کہ عالمی معیشت کو زیادہ جمہوری، نپا تلا اور متوازن بنانا امریکہ روس ایجنڈا کا ایک مشترک معاملہ ہے، تاکہ ’ورلڈ آرڈر‘ زیادہ جمہوری نوعیت کا حامل ہو۔
صدر پیوٹن کے مطابق، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا عدم پھیلاؤ، منظم جرائم کا انسداد، دہشت گردی اور غربت کے خلاف جنگ روس امریکہ کے مابین کچھ مزید مشترک مفادات ہیں۔
ماضی میں، مسٹر پیوٹن یوکرین کے بحران کے سلسلے میں عام طور پر امریکہ اور مغرب کے خلاف شدید حملے کرتے رہے ہیں۔ یہ الزام لگاتے ہوئے کہ مغرب کی حمایت سے یوکرین کے سابق لیڈر، وکٹر یناکووچ کا تختہ الٹا گیا، جو روس کے قریبی اتحادی تھے۔
جمعرات کے دِن ’سالانہ ٹی وی کال۔اِن شو‘ میں صدر پیوٹن نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ عالمی امور میں سبقت قائم رکھنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ اُسے ’اتحادیوں کی نہیں بلکہ غلاموں‘ کی ضرورت ہے۔
روس اور امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کے درمیان تعلقات اُس وقت نچلی نہج پر پہنچ گئے تھے جب 2014ء میں روس نے جزیرہ نما کرائیمیا کو اپنے ساتھ ضم کیا اور روس مشرقی یوکرین کے مسلح تنازع میں ملوث رہا، جسے وہ علیحدگی پسند باغیوٕں کو حمایت فراہم کر رہا ہے، جو کئیف کی سرکاری افواج کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
روس یوکرین کے بحران میں براہ راست ملوث ہونے کے الزام سے انکار کرتا رہا ہے، تاہم اُس نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ باغیوں کے ہمراہ لڑنے والے محض روسی رضاکار ہیں۔
امریکہ اور یورپی یونین نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ مشرقی یوکرین میں روس کے ہتھکنڈوں کو ناکام کرنے کی غرض سے، اور جب تک فروری میں مِنسک میں جنگ بندی کے سمجھوتے کی پابندی نہیں کی جاتی اور دونباس علاقے میں جنگ بندی پر عمل نہیں ہوتا، لاگو تعزیرات میں کسی قسم کی نرمی نہیں برتی جائے گی۔