روس نے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل طالبان پر عائد تعزیرات اس وقت تک نہیں اٹھائے گی جب تک امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کی شرائط پر عمل نہیں ہو جاتا۔
ان شرائط میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے علاوہ بین الافغان مذاکرات بھی شامل ہیں۔
امکان تھا کہ طالبان پر عائد پابندیاں ہٹانے کا معاملہ 29 مئی کو سیکیورٹی کونسل میں زیرِ بحث آئے گا۔ لیکن افغانستان سے متعلق روس کے نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ معاملہ سلامتی کونسل میں زیر بحث نہیں آئے گا۔ کیوں کہ اُن کے بقول دوحہ معاہدے کی بعض شرائط پر ابھی عمل ہونا باقی ہے۔
ترکی کی 'اناطولیہ' نیوز ایجنسی سے ایک انٹرویو میں ضمیر کابلوف نے کہا کہ 29 مئی سے قبل طالبان پر عائد پابندیاں اُٹھا لی جاتیں۔ اگر 10 مارچ کو بین الافغان مذاکرات شروع ہو چکے ہوتے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے بعد 10 مارچ سے بین الافغان مذکرات کا آغاز ہونا تھا۔
لیکن اس معاملے پر طے شدہ شیڈول کے مطابق عمل نہ ہونے کی وجہ سے افغان امن عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔
روسی سفارت کار نے کہا کہ تنازع کے فریقوں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا عمل تاخیر کا شکار ہے۔
ان کے بقول افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے اختلافات کی وجہ سے کابل کی مذاکراتی ٹیم تشکیل نہیں دی جا سکی۔
ضمیر کابلوف کے بقول طالبان پر عائد پابندیاں ہٹانا طالبان کو ایک دہشت گردی تنظیم سے ایک سیاسی تنظیم میں تبدیل کرنے کے عمل کا ایک اہم جزو ہے۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ یہ معاملہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں اس وقت دوبارہ شامل کیا جائے گا جب کابل حکومت، دیگر سیاسی دھڑوں اور طالبان کے درمیان براہ راست جامع بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا۔
یادر ہے کہ روس کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابلوف کا یہ یبان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب عالمی برداری امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
افغان صحافی اور تجزیہ کار سمیع یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ ان پر عائد سفری پابندیاں ختم کی جائیں۔
ان کے بقول سلامتی کونسل کے اہم ممالک بشمول روس، چین اور امریکہ طالبان پر عائد پابندیوں کو ختم کر نے کے بظاہر حق میں ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ وہ چاہتے ہیں کہ طالبان افغانستان میں جاری تشدد کی کارروائیوں میں کمی کریں اور بین الافغان مذاکرات سے متعلق اپنے موقف میں لچک پیدا کریں۔
سمیع یوسف زئی کے بقول طالبان پر عائد تعزیرات اٹھانے کے معاملے میں تاخیر کرنا بظاہر طالبان پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش ہے کہ وہ اپنے موقف میں نرمی پیدا کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ اور روس طالبان کو سفری سہولیات فراہم کرنے میں تعاون کر رہے تھے۔ لیکن اب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ افغان امن عمل ایک اہم مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ لہذٰا عالمی برادری کو مل کر اسے منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔
سمیع یوسف زئی کے بقول طالبان کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر اُنہیں عالمی برادری کے ساتھ چلنا ہے تو اُنہیں تشدد میں کمی کے علاوہ دیگر تحفظات دور کرنا ہوں گے۔
اگرچہ روس کے سفارت کار کے بیان پر تاحال طالبان کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ لیکن طالبان کا اس سے قبل یہ موقف رہا ہے کہ افغان حکومت جب تک ان کے پانچ ہزار قیدی رہا نہیں کر دیتی اس وقت تک وہ بین الافغان مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔
ادھر قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر بات چیت کے لیے طالبان کا ایک وفد کابل پہنچ چکا ہے۔ طالبان ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ یہ ٹیم افغان قیدیوں کی شناخت اور تصدیق کے لیے کابل گئی ہے۔
افغانستان کی قومی سلامتی کے ترجمان جاوید فیصل نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان کی ایک تیکنیکی ٹیم کابل پہنچ چکی ہے جو افغان حکومت کی تیکنیکی ٹیم کے ساتھ مل کر قیدیوں کی رہائی کے لیے کام کریں گی۔
طالبان اور افغان حکومت کے عہدے داروں کے درمیان یہ بات چیت ایسے وقت ہو رہی جب طالبان نے جمعرات کو افغان حکومت کے 80 مزید قیدی رہا کر دیے ہیں۔ اور اب تک طالبان کی طرف سے افغان حکومت کی رہا ہونے والے قیدیوں کی تعداد 347 ہو گئی ہے۔
دوسری طرف افغان حکومت نے طالبان کے لگ بھگ دو ہزار قیدی رہا کر دیے ہیں جن میں منگل کو رہا ہونے والے سیکڑوں قیدی بھی شامل ہیں۔