قانون کی حکمرانی کے عالمی گراف میں پاکستان کی تنزلی کیوں؟

فائل فوٹو

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک درجن سے زائد مرتبہ قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کی بات کی۔ البتہ ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان قانون کی حکمرانی والے ممالک کی فہرست میں مسلسل نیچے جا رہا ہے۔

عمران خان نے 19 اکتوبر کو پیغمبرِ اسلام کے یومِ ولادت کے موقع پر منعقدہ کانفرنس کے موقع پر کہا تھا کہ عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی صرف اس معاشرے میں قائم کی جا سکتی ہے جہاں اخلاقیات کے درجے بلند ہوں۔ اخلاقیات کے معیار پر ہی پارلیمانی نظامِ حکومت کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جو بھی ملک آگے بڑھے ہیں ان کے پاس اخلاقیات اور انصاف کے اوصاف ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کی جدوجہد ہی ملک میں قانون کی بالادستی کے لیے ہے۔ وہ انصاف اور قانون کی بالادستی کی جنگ لڑتے رہیں گے۔

وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ ملک میں طاقتوروں کو قانون کے نیچے لے کر آنا ہو گا۔ جب تک ملک میں قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو جاتی ملک میں بہتر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ملک میں خوش حالی آ سکتی ہے۔ وزیراعظم کے بقول ان کا مقصد مدینہ کی ریاست جیسی ریاست کا قیام ہے جہاں لوگوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق اور ضروریات فراہم کی جائیں۔

پاکستان کی قانون کی حکمرانی کی فہرست میں تنزلی

البتہ حقائق حکمرانوں کے دعوؤں کے مقابلے میں کافی مختلف نظر آتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے 38 ماہ میں پاکستان قانون کی حکمرانی کی عالمی فہرست میں مسلسل نیچے کی جانب گامزن ہے۔ جس کی نشان دہی حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بھی ہوئی ہے۔

ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی قانون کی بالادستی کی فہرست میں پاکستان 2019 میں 126 ممالک میں 117 ویں نمبر پر تھا۔ 2020 میں 128 ممالک کی فہرست میں 120 ویں نمبر پر جب کہ تازہ رپورٹ میں پاکستان 139 ممالک کی فہرست میں 130 ویں نمبر پر رہا ہے۔

SEE ALSO: تحریکِ انصاف کی حکومت کی تین سالہ کارکردگی؛ ماہرین کیا کہتے ہیں؟

رپورٹ تیار کرنے والے ادارے کے مطابق اس میں ممالک کی درجہ بندی کے لیے آٹھ عوامل شامل کیے گئے ہیں۔ جس میں حکومتی طاقت میں رکاوٹیں، بدعنوانی کا خاتمہ، حکومت میں شفافیت، بنیادی انسانی حقوق، امن عامہ، قوانین کا اطلاق، سول اور جرم و سزا سے متعلق نظامِ انصاف شامل ہیں۔

رپورٹ کے مندرجات کے مطابق پاکستان میں سب سے کم اسکور امن عامہ، بنیادی حقوق، قوانین کے اطلاق اور نظامِ انصاف سے متعلق شعبوں میں رہا ہے۔

ان عوامل سے حاصل کی گئی درجہ بندیوں میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے خطے میں شامل اس فہرست میں سوائے افغانستان کے تمام ممالک سے نیچے رہا ہے جب کہ عالمی سطح پر پاکستان کا اسکور نکاراگوا، ہیٹی، موریطانیہ، کیمرون، مصر، کانگو، کمبوڈیا اور وینزویلا سے زیادہ ہے۔

پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش 124 ویں، ایران 119 ویں، بھارت 79 ویں، سری لنکا 76 ویں اور نیپال 70 ویں نمبر پر ہے۔

'رپورٹ کے مندرجات میں کوئی حیرانی کی بات نہیں'

پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لیے کام کرنے والے ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کو مذکورہ رپورٹ پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ تمام وجوہات جن کا ذکر رپورٹ میں کیا گیا ہے وہ حقیقت میں بھی موجود ہیں۔ ان کے بقول ''ملک میں قانون کی بالادستی نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ یہاں اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی یا گروہی مفادات ترجیحات ہیں۔ انہیں صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں اور ایسے صوابدیدی اختیارات بعض افراد اور بعض اداروں کو حاصل ہیں۔''

ان کے مطابق ''قانون میں انہیں ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں لیکن وہ اس کا استعمال کر رہے ہیں بلکہ اتنا کھلے عام کر رہے ہیں کہ ساری دنیا اس پر بات کر رہی ہے۔''

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ جب امریکہ کے وزیرِ خارجہ سے پوچھا گیا کہ ڈیپ اسٹیٹ کیا ہوتی ہے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ''جیسے پاکستان میں ہوتا ہے۔ جہاں نام تو سویلین قیادت کا ہوتا ہے لیکن کام دیگر ادارے کر رہے ہوتے ہیں۔''

ان کے بقول اگر آپ اس قدر بدنام ہیں تو اس رپورٹ پر حیرانی کی کوئی بات نہیں بلکہ اگر پاکستان آخری درجے پر بھی ہوتا تو بھی کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔

'ملک کا نظامِ انصاف اشرافیہ اور طاقت ور طبقے کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے'

انسانی حقوق کی کارکن اور صنفی برابری کے لیے متحرک فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ شہریوں اور ریاست کا تعلق ختم ہو گیا ہے۔ کیوں کہ اکثر پاکستانیوں کو ریاستی اداروں سے ریلیف نہیں ملتا۔

انہوں نے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم کو دیکھیں تو وہ طاقت ور، امیر اور مراعات یافتہ طبقے کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔

ان کے بقول جب ریاستی انصاف کے ادارے یعنی پولیس، عدالتیں، پراسیکیوشن اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے عام شہریوں کے لیے نہیں بلکہ اشرافیہ اور طاقت ور لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرنے لگ جائیں تو وہ کیسے بہتر نتائج دے سکیں گے۔

Your browser doesn’t support HTML5

بدعنوان عناصر احساس پروگرام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں، ثانیہ نشتر

فرزانہ باری کہتی ہیں کہ نہ صرف یہ بلکہ ان کا احتساب کرنے کے لیے موجود ادارے یعنی پارلیمان، پر بھی اسی بالادست طبقے کی اجارہ داری ہے۔ جس کی وجہ سے ان اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے کا کوئی ٹھوس نظام کام نہیں کر رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے میں ریاست اور شہریوں کا تعلق کیسے برقرار رہ سکتا ہے۔

ان کے بقول یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر حکمرانوں کے دعوے، ان کے عمل میں تبدیل نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ عمل درآمد کے فقدان میں بہت سے قوانین کی موجودگی بھی بے معنی ہو جاتی ہے۔ قانون اور آئین میں ریاست پر بہت سے فرائض تو رکھے گئے ہیں اور شہری اس کا استحقاق بھی رکھتے ہیں لیکن شہری ان کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اداروں میں بیٹھے لوگوں کا ذہن، کرپشن، میرٹ کے فقدان اور اداروں کے سیاست زدہ ہونے سے وہ انہی طاقت ور لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں جو ملک کو کنٹرول کرتے ہیں۔

فرزانہ باری نے دعویٰ کیا کہ اس طاقت ور طبقے میں چند ہزار سول ملٹری ایلیٹ، سیاست دان اور بیورو کریٹس شامل ہیں جو اپنے مفادات کے سوا بہت کم سوچتے ہیں۔

کچھ آوازیں ایسی بھی ہیں جو اس رپورٹ سے اتفاق کرتی نظر نہیں آتیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل چوہدری اظہر کا کہنا ہے کہ عام طور پر یہ رپورٹس زمینی حقائق کے بجائے محض واقعاتی بنیادوں پر جمع کی جاتی ہے۔

ان کے بقول پاکستان میں نظامِ انصاف میں اصلاحات کی گنجائش موجود ہے جس سے قانون کی بالادستی مزید مستحکم ہوسکتی ہے لیکن اسے نظام کی ناکامی سے نہیں جوڑا جاسکتا بلکہ بہت سے کئی ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جن سے نظام انصاف کی پیچیدگیاں دور کی گئی ہیں۔

پاکستان کا سول اور کریمنل جسٹس سسٹم کیوں ڈلیور نہیں کر پا رہا؟

کالم نگار اور وکیل حسن کمال وٹو کے خیال میں پاکستان میں نظامِ انصاف کی ناکامیوں کی وجوہات دو قسم کی ہیں۔ جس میں پہلی وجہ نظام میں کرپشن اور دوسری وجہ نظامِ انصاف خاص طور پر کریمنل جسٹس سسٹم، جس کو اس قدر فنڈز ہی فراہم نہیں کیے جاتے جس سے وہاں بہتر تفتیش کے ذریعے ملزمان کو سزائیں دینے کی شرح بڑھائی جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان بھر میں جرائم پر سزائیں دینے کی شرح پانچ سے 10 فی صد کے درمیان ہے جو انتہائی کم اور افسوس ناک ہے۔

ان کے بقول لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ کورٹ کچہریوں میں رشوت، سفارش یا کسی قسم کی بد دیانتی کے بغیر انصاف نہیں ملے گا۔

حسن کمال وٹو کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ قوانین کے موجود نہ ہونے کا نہیں بلکہ قوانین کے اطلاق کا ہے۔ ملک میں کئی شعبوں میں بہتر قانون سازی ہونے کے باوجود بھی زمینی حقائق تبدیل ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔

ان کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ کرپشن، میرٹ کا فقدان، معاشی استحصال، قانون کا امتیازی استعمال اور اس کے نتیجے میں ریاستی رٹ کی کمزوری ہے۔

حل کیا ہے؟

احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور بالادستی قائم کرنے کا حل انتہائی سادہ ہے۔ ملک میں آئین موجود ہے بس اس پر عمل شروع کرنا ہے۔ یعنی جس کا جو کام آئین میں دیا گیا ہے اسے صرف وہی کام کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کا مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ آئین تو محض ایک کتاب ہے۔ اس پر عمل درآمد کی کوئی پرواہ نہیں اور سب کام طاقت کے بل بوتے پر کرنے ہیں تو پھر آپ کچھ تبدیل نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر یہ سوچ لیا جائے کہ ملک کی بقا آئین پر عمل درآمد میں ہے تو بس اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔