ایرانی صدر حسن روحانی نے عالمی طاقتوں سے معاملات طے کرنے کےسلسلے میں مزید سفارت کاری پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے سال ہونے والے جوہری سمجھوتے پر عمل درآمد سے پتا چلتا ہے کہ ’’منطق اور استدلال طاقت اور دھمکیوں پر حاوی آتے ہیں‘‘۔
روحانی نے یہ بات جوہری توانائی کے قومی دِن کے موقعے پر خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اُن کے الفاظ میں ’’قدامت پسند بننا ہمارے لیے ہر مقام پر غیر مفید معاملہ ہے۔ اس کے باعث کسی بھی معاشرے کے لیے سب سے بڑا خطرہ پیدا ہوتا ہے‘‘۔
روحانی نے کہا کہ ایران کو دنیا سے بات چیت کرنا ہوگی اور ساتھ ہی اپنے اوپر انحصار کی کوشش جاری رکھنا ہوگی۔ اُنھوں نے متنبہ کیا کہ جوہری سمجھوتے کے نتیجے میں فراہم ہونے والے فوائد پائیدار نہیں۔
بقول اُن کے، ’’جوہری سمجھوتے کی بدولت پیدا ہونے والے مواقع پائیدار اور دوامی نہیں ہیں۔ مواقع گزرنے والے بادلوں کی مانند ہوا کرتے ہیں‘‘۔
روحانی کے اس بیان سے کچھ ہی روز قبل ایران نے طاقتور پاسداران انقلاب کے محافظ، جنرل محمد علی جعفری نے اس سمجھوتے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ باعزت دستاویز نہیں ہے‘‘۔
سمجھوتے کے تحت، ایران نے یورینئیم کی افزودگی کی سطح کم کرنے اور معائنے پر رضامندی کا عہد کیا جس کے بدلے اُس پر سے تعزیرات اٹھالی گئیں، جب کہ معاشی پابندیاں ہٹانے کے عوض ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں پر روک لگانا قبول کیا۔