روہنگیا بیواؤں کا ٹھکانہ

برما میں روہنگیا شدت پسندوں کے حملوں کے جواب میں شروع کئے گئے فوجی آپریشن سے بچنے کے لئے اب تک 6 لاکھ 25 ہزار روہنگیا مسلمان خواتین، بچے، مرد اور بزرگ بنگلہ دیش ہجرت کرچکے ہیں اور ان ہجرت کرنے والوں میں بڑی تعداد ایسی خواتین کی ہے جو اپنے شوہروں سے محروم ہوچکی ہیں۔

بنگلہ دیش کے جنوبی علاقوں کی پہاڑیوں سے جب سورج سر ابھارتا ہے تو اس کی پہلی نظر اس گنجان خیمہ بستی پر پڑتی ہے جس کے سرخ رنگ کے خیموں میں 230 ایسی خواتین اور بچے رہتے ہیں جو اپنے شوہروں اور باپ کو کھو چکے ہیں۔

روشیدہ جان بھی ان خواتین میں سے ایک ہیں۔ برمی فوجیوں کی جانب سے گاؤں جلائے جانے کے بعد روشیدہ دس دن کا سفر مسلسل پیدل طے کرنے کے بعد اپنے پانچ بچوں کے ساتھ بنگلہ دیش پہنچیں۔

ٖغیر ملکی خبر ایجنسی رائٹرز کو اپنی بپتا سناتے اور اپنے لاپتہ شوہر کے بارے میں بات کرتے ہوئے روشیدہ جان جذبات پرقابو نہ رکھ سکیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ روشیدہ کا کہنا تھاکہ ان کے شوہر اور گاؤں کے دیگر 11 افراد کو روہنگیا شدت پسند ہونے کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا تھا۔ جب سے اب تک ان کا کوئی اتا پتا ہے نہ کوئی خیرخبر۔

عائشہ بیگم کی عمر صرف 19سال ہے اور ان کے شوہر کو برمی فوجیوں نے قتل کر دیا تھا۔ کم عمری میں بیوگی کا صدمہ اٹھانے والی عائشہ نے اس وقت کو برستی آنکھوں اور رندھی آواز کے ساتھ دہراتے ہوئے کہا کہ میں اپنے شوہر کی لاش کے پاس بیٹھی تھی اور بس روئے چلی جارہی تھی۔ ان کو چھریوں کے وار کر کے قتل کیا گیا اور مجھے ان کی لاش تین حصوں میں سڑک پر پڑی ملی۔

روہنگیا مسلمانوں کی بڑی تعداد باقاعدہ ریاست سے محروم ہے اور برما کی بدھ اکثریتی ریاست انہیں غیر قانونی پناہ گزین سمجھتی ہے۔

اقوام متحدہ اور امریکا برما کے فوجی آپریشن کو ’نسل کشی‘ قرار دے چکے ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے سیکورٹی فورسز کو ریپ، قتل اور گھر جلانے کا ذمہ دار ٹہرایا ہے۔

برمی حکومت نے ان تمام الزامات کی تردی کی ہے جبکہ فوج کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیقات میں فوجیوں کی جانب سے کی گئی کوئی غلط بات یا قانون شکنی سامنے نہیں آئی اور نہ ہی کسی زیادتی کا کوئی ثبوت ملا۔

بنگلہ دیش کے کاکس بازار کے نزدیک بالو کھلی کے علاقے میں ’مسلم میجارٹی‘ نامی تنظیم کے تعاون سے بنائی گئی خیمہ بستی جو علاقے میں قائم تین خیمہ بستیوں میں سب سے بڑی خیمہ بستی ہے اس میں 50 خیمے ایسے ہیں جن میں ایک بھی مرد نہیں بلکہ ا س کے رہائشی صرف بیوہ خواتین اور یتیم بچے ہیں۔

عارضی طور پر بنائے گئے دو کچن زمین پر بنائے گئے چھوٹے سوراخوں میں کھانا پکانے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ پانی کے لئے ایک نیا کنواں کھودا گیا ہے جبکہ ایک بڑے ٹینٹ میں نماز پڑھنے کی سہولت ہے۔

کیمپ کی غیر اعلانیہ لیڈر 20 سالہ سووا لیہا نے رائٹرز کو بتایا کہ جو عبادت نہیں کر سکتے ان کے لئے پیر اور جمعہ کو درس و تدریس کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کے لئے ایک کمرہ مخصوص کیا گیا ہے۔

پناہ گزین کیمپ میں جابجا گند ے پانی کے جوہڑ دکھائی دیتے ہیں جو کپڑوں اور برتنوں کی دھلائی کی وجہ سے بنتے ہیں۔تمام تر مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود خواتین خود کو ان کیمپوں میں محفوظ تصور کرتی ہیں۔

رابعہ خاتون جن کی عمر 22 سال ہے انہوں نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ رابعہ نے کہا جن کے پاس کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں اس طرح کے کیمپ نسبتاً محفوظ ہیں۔ یہاں کوئی مرد آسانی سے داخل نہیں ہوسکتا۔ کمرے بڑے ہیں اور امداد ملنے کی امید بھی رہتی ہے۔

اقوام متحدہ کی ویمن ایجنسی کے اکتوبر میں بتائے گئے اعداد و شمارکے مطابق کاکس بازار پناہ گزین کیمپوں میں مقیم مہاجرین میں 51 فیصد لڑکیاں اور خواتین ہیں۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ کیمپوں میں مقیم خواتین اور بچے ہیومن ٹریفکنگ، زیادتی اور جبری شادیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

برما سے بنگلہ دیش پہنچنے والی 13 سے 20 سال کی لڑکیوں اور خواتین کے عموماً دو یا چار بچے ہوتے ہیں جبکہ کچھ حاملہ بھی ہوتی ہیں۔ کسی ریلیف ایجنسی نے بیواؤں اور یتیموں کے کیمپ کے لئے کوئی امداد فراہم نہیں کی تاہم کچھ امدادی گروپ انفرادی طور پر مدد دے رہے ہیں۔

پانچ بچوں کے ساتھ کیمپ میں رہائش پذیر ریحانہ بیگم کی کل کائنات کچھ مذہبی کتابیں اور چند کپڑے ہیں۔ وہ بخار میں تپتی اپنی بچی کو محض اس خوف سے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جاسکیں کہ کہیں ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے تقسیم کئے جانے والے راشن کارڈ اور امداد سے محروم نہ رہ جائیں۔

برما کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ مل کر ورکنگ گروپ پر کام کر رہے ہیں تاکہ دو مہینوں کے اندر رضا کارانہ طور پر واپس جانے کے خواہشمند روہنگیا پناہ گزینوں کی واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن ریحانہ بیگم جیسے بہت سے پناہ گزینوں کو لگتا ہے کہ وہ اب کبھی برما واپس نہیں جا سکیں گے بلکہ انہی کیمپوں میں مرجائیں گے۔