افغانستان کی سرحد کے قریب پاکستان کے علاقے شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں چار اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
پاکستان فوج نے جمعے کو جاری ایک بیان میں بتایا ہے کہ جمعرات کی شب حملے میں فوج کی چوکی کو نشانہ بنایا گیا جب کہ جوابی کارروائی میں چار حملہ آور مارے گئے ہیں۔
فوری طور پر حملے کی ذمہ داری کسی گروہ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی۔
اس سے قبل حکام نے بتایا تھا کہ باجوڑ میں سویلین آبادی پر جمعرات کو سرحد پار سے مبینہ عسکریت پسندوں نے متعدد راکٹ فائر کیے جس کے نتیجے میں ایک بچہ ہلاک اور سات افراد زخمی ہوئے۔
زخمیوں میں ایک بزرگ خان زاد سید بھی شامل ہیں جو اس وقت خار کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
خان زاد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد جا رہے تھے کہ راکٹ حملے کی زد میں آگئے جب کہ حملے میں تین گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔
اسی طرح لغڑئی گاؤں سے تعلق رکھنے والے شاہ محمد کے گھر پر ایک راکٹ لگنے سے انکے دو بیٹے اور ایک بیٹی زخمی ہوئے ہیں۔ ان کے بقول ایک بچے کو شدید چوٹیں آئی ہیں جسے پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
پاکستان افغانستان سرحد پر موجود رہائشی علاقوں میں نامعلوم افراد کی جانب سے اکثر راکٹ اور مارٹر حملوں ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں سویلین آبادی کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں شدت کیوں؟اقوامِ متحدہ نے چند روز قبل پاکستانی علاقوں میں سرحد پار سے ہونے والے حملوں میں سویلین آبادی کو نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسندوں گروہوں کا انضمام علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور ٹی ٹی پی سرحد پار سے حملوں میں ملوث ہے۔
قبائلی صحافی محمد سلیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعرات کو کم از کم پانچ راکٹ لغڑئی اور سرکئی کے مختلف دیہات پر داغے گئے تھے۔ جس کے بعد مقامی حکام مکانات کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
باجوڑ کے انتظامی عہدیداروں اور مقامی قبائلیوں کا کہنا ہے کہ راکٹ حملوں کے بعد ماموند قوم میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔
ان راکٹ حملوں کی فوری طور پر کسی فرد یا گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ مگر حکام اور مقامی قبائلی اسے سرحد پار روپوش عسکریت پسندوں کی کارروائی قرار دیتے ہیں۔
باجوڑ کا محل وقوع
باجوڑ کا علاقہ پاکستان کے دیر بالا اور دیر زیریں جب کہ افغانستان کے صوبہ کنڑ سے منسلک ہے۔
گو کہ باجوڑ کی سرحدیں افغانستان کے صوبہ نورستان اور خیبرپختونخوا کے سوات اور چترال سے نہیں ملتیں مگر ان علاقوں میں موجود زیادہ تر عسکریت پسندو ں کا اسی باجوڑ کے علاقے سے گزر ہوتا ہے۔
افغان حکام نے باجوڑ کے سرحدی علاقوں میں راکٹ حملوں پر کسی قسم کا بیان جاری نہیں کیا۔ مگر سرحد پار افغانستان سے آنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں افغان حکومت کی عمل داری کم ہے۔
ان علاقوں میں نہ صرف سوات، وزیرستان، خیبر اور دیگر پاکستانی علاقوں سے فرار ہونے والے بلکہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کے بھی مضبوط ٹھکانے موجود ہیں۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان اور گورنر شاہ فرمان نے باجوڑ کے سرحدی علاقوں پر راکٹ حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔