امریکہ کے خلائی ادارے ناسا نے ایک جدید روبوٹ زمین کے مدار میں گردش کرنے والے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی طرف روانہ کر دیا ہے۔ سی آئی ایم او این ٹو نامی روبوٹ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ انسانی جذبات و احساسات کو محسوس کر لیتا ہے اور اسی کے مطابق اپنا ردعمل دیتا ہے۔
یہ روبوٹ فلوریڈا میں قائم لانچنگ پیڈ سے خلائی اسٹیشن کے لیے بھیجے گئے سامان میں شامل ہے۔ سپیس ایکس کے فالکن نائن راکٹ کے ذریعے 5700 پاؤنڈ سامان خلائی اسٹیشن بھیجا گیا ہے، جس میں آلات اور وہاں قیام پذیر خلابازوں کی ضرورت کی اشیا شامل ہیں۔
روبوٹ کو خلائی جہاز کے عملے کے موبائل ساتھی کا نام دیا گیا ہے۔ یہ فٹ بال کی شکل کا ایک روبوٹ ہے جس میں متعدد مائیکروفون اور کیمرے نصب ہیں اور اس کا نظام آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے ایک خصوصی نظام سے منسلک ہے جو انسانی جذبات کو شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انسانی جذبات و احساسات کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنا ردعمل دینے والے روبوٹ سی آئی ایم او این ٹو کے موجد میٹ تھیاس بنیاک ہیں۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ہمارا مقصد خلائی اسٹیشن پر رہنے والے خلابازوں کے لیے ایک حقیقی دوست تیار کرنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلاباز اور ساتھی روبوٹ کے درمیان تعلق فی الواقع بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ روبوٹ خلاباز کو دیکھ کر یہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ اداس ہے، ناراض ہے یا کہ خوش ہے۔ پھر اس کی کیفیت کے مطابق اس سے گفتگو کرتا ہے اور اسے نارمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس سے قبل مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کمپنی آئی بی ایم اور سی آئی ایم او این کے سائنس دانوں نے 2018 میں اسی سے ملتا جلتا ایک روبوٹ تیار کیا تھا جسے خلائی اسٹیشن بھیج دیا گیا تھا۔ تاہم، اب اس نئے روبوٹ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اس کا مزاج اور انداز زیادہ دوستانہ ہے۔
یہ صرف خلابازوں سے دوستی ہی نہیں کرے گا بلکہ اس ٹیکنالوجی کو ٹیسٹ کرنے میں مدد دے گا جو مستقبل کی طویل خلائی مہمات میں انسان کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں، کیونکہ طویل دورانیے کی خلائی مہمات میں زمین سے دوری، جسم پر خلا کے اثرات اور تنہائی کا احساس خلاباز کی دماغی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔
یہ روبوٹ انگریزی زبان بولتا ہے اور گروپ کے ساتھ گفتگو کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی جذبات سمجھے والے روبوٹ کا تصور 1940 کی ایک کامک فکشن سیریز سے لیا گیا ہے۔ اس فکشن سیریز میں ایک سائنس دان خلا میں جاتا ہے اور اس کے ساتھ دماغ کی شکل کا ایک روبوٹ بھی ہے جس کا نام پروفیسر سائمن ہے۔ وہ اس سے گفتگو کرتا ہے اور مشورے دیتا ہے۔
سپیس ایکس پہلی پرائیویٹ کمپنی ہے جس کی مالیت ایک سو ارب ڈالر ہے۔ یہ 15 ملکوں کا مشترکہ پراجیکٹ ہے۔ اب ناسا اپنے خلائی مشن کے لیے سپیس ایکس کے راکٹ استعمال کر رہا ہے۔