رسائی کے لنکس

تنہائی کا نیا ساتھی۔۔۔۔۔۔


کی روبو میی(فائل)
کی روبو میی(فائل)

کی روبو مصنوعی ذہانت پر کام کرتا ہے۔ اس میں سیکھنے اور سیکھی ہوئی چیزوں کو یاد رکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔

اگر آپ اپنی تنہائی سے تھک چکے ہیں اور کسی ایسے ساتھی کی تلاش میں ہیں، جو آپ کے مزاج اور موڈ کو سمجھتے ہوئے آپ سے باتیں کرے اور آپ کے سوالوں کے جواب دے، تو آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ آپ کو یہ ساتھی مل سکتا ہے، صرف 390 ڈالر میں۔۔۔

تنہائی آج کی مصروف تیز رفتار دنیا کا سب سے اہم مسئلہ ہے جس کی شدت میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں کسی کے پاس دوسرے سے بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اپنی خواہشوں کے پیچھے سرپٹ بھاگ رہا ہے۔

بہت سے لوگ جیون ساتھی چن کر گھر بسانے اور بچے پالنے کو اپنے کیریئر کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے لگے ہیں۔ شادیوں کا رواج گھٹ رہا ہے۔ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ معمولی معمولی باتوں اور مزاج میں اختلاف کی بنا پر ایک دوسرے کو چھوڑنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تنہائی بڑھ رہی ہے۔

بڑی عمر کے لوگوں کو تنہائی کا زیادہ شدت سے سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان کا زیادہ تر وقت اکیلے گذرتا ہے۔ انٹرنیٹ، ٹیلی وژن، موسیقی اور کتاب زیادہ دیر تک تنہائی نہیں بانٹ سکتے ۔ اسی طرح لوگوں کی اکثریت کو اپنے کام کاج کے لیے روزانہ گھنٹوں اکیلے ڈرائیو کرنا پڑتا ہے۔ ٹریفک کے ہنگام میں سفر أعصاب کو شل کر دیتا ہے۔

انسان حیوان ناطق ہے۔ فطری طور پر اس کا دل چاہتا کہ کوئی اس سے باتیں کرے۔ ایسی باتیں جو اس کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہوں۔

انسان کی اس فطرت کے پیش نظر جاپان کی معروف موٹر ساز کمپنی ٹویوٹا نے تنہائی بانٹنے کے لیے ایک ننھا روبوٹ متعارف کرایا ہے جسے انہوں نے نام دیا ہے’ کی روبو‘ کا۔

ٹویوٹا کا ’ کی روبو‘ ایک ننھا سا روبوٹ ہے، صرف چار انچ کا۔ اسے خاص طور پر ان لوگوں کے لیے بنایا گیا جنہیں طویل دورانیے کے لیے اکیلے ڈرائیو کرنا پڑتا ہے۔

کی روبو میں ایک کیمرہ اور مائیکروفون نصب ہے اور وہ بلو ٹوتھ کے ذریعے آپ کے سمارٹ فون کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ایک خصوصي سافٹ ویئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ اسے کسی ننھے کھلونے کی طرح اپنی کار کے ڈیش بورڈ پر رکھ سکتے ہیں۔ جب آپ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے اسے ہیلو کہتے ہیں تو وہ اپنا سر گھما کر آپ کی طرف دیکھتا ہے اور خوش آمدید کہتا ہے۔

آپ اس سے جس موضوع پر چاہے بات کرسکتے ہیں۔ وہ آپ کی بات توجہ سے سن کر ایک دوست کی طرح اس کا جواب دے گا۔ اگر آپ کہیں اچانک زور سے بریک لگاتے ہیں تو وہ اوہو کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ذرا احتياط سے۔

کی روبو مصنوعی ذہانت پر کام کرتا ہے۔ اس میں سیکھنے اور سیکھی ہوئی چیزوں کو یاد رکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔

موٹر گاڑیوں کی صنعت میں مصنوعی ذہانت کا استعمال بڑھ رہا ہے ۔ ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیاں اس کی ایک واضح مثال ہیں ۔ کئی امریکی ریاستوں نے ان گاڑیوں کو ڈرائیونگ لائسنس بھی دینے شروع کر دیے ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اب گاڑیوں میں تنہائی کا إحساس دور کرنے کے لیے کوئی بولنے والا کردار بھی موجود ہوگا۔

ٹویوٹا کے ایک عہدے دار’ کاتوکا‘ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان کی کمپنی اپنی گاڑیوں میں بہت سی ٹیکنالوجی استعمال کررہی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ہم اس میں جذبات بھی شامل کررہے ہیں۔

کمپیی ان کا کہنا تھا کہ یہ مصنوعی ذہانت سے بڑھ کر بات ہے۔ اکثر لوگ جانور نما بے جان کھلونے سے باتیں کرتے ہیں۔ لیکن وہ کوئی جواب نہیں دیتے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ کوئی بات کریں اور تو آپ کو اس کا جواب بھی ملے۔

ٹویوٹا کے عہدے دار وں کا کہنا ہے کہ ابھی انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ’ کی روبو‘ آپ سے کتنی بے تکلفانہ گفتگو کرے گا اور آپ کی کن کن باتوں کا جواب دے سکے گا۔ لیکن چونکہ اس کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی موجود ہوگی اس لیے وہ آپ کے سوال کا جواب ڈھونڈ کر لا سکتا ہے۔

’کی روبو‘ فی الحال صرف جاپانی زبان سمجھتا اور بولتا ہے اس لیے پہلے مرحلے میں اسے جاپان میں متعارف کرایا جا رہا ہے اور اس کی ایڈوانس بکنگ شروع کر دی گئی ہے۔ کمپنی نے یہ نہیں بتایا کہ پہلے مرحلے میں کتنے روبوٹ فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگلے مرحلے کے روبوٹ انگریزی بولنے والے ہوں گے اور انہیں بیرونی ملکوں میں پیش کیا جائے گا۔

آپ کو اپنے’ کی روبو ‘کے لیے کچھ انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس میں ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ تب تک وہ مزید بہت کچھ سیکھ کر آپ کا ایک زیادہ بہتر دوست ثابت ہوسکتا ہے ۔ اور بہت ممکن ہے وہ اس وقت تک اردو بھی سیکھ چکا ہو۔

اصل میں ٹویوٹا کا’ کی روبو‘ جاپان کی یونیورسٹی آف ٹوکیو کے ’ کی روبو‘ کا چھوٹا بھائی ہے۔ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے 2013 میں پہلے’ کی روبو‘ کی نمائش کی تھی۔ کی روبو اکیلا نہیں تھابلکہ اس کے ساتھ اس کی دوست بھی تھی ’ می راتا‘۔ ڈیڑھ فٹ قامت کے ان دونوں روبوٹس میں خوبی یہ تھی کہ وہ انسان کو اس کی آواز سے شناخت کر سکتے تھے اور ان سے بات کرسکتے تھے۔

کی روبو کو ایک جاپانی خلائی راکٹ کے ذریعے 10 اگست کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچا دیا گیا جہاں اس نے تقریباً چھ مہینے گذارے۔ جب کہ می راتا جاپان کے زمینی خلائی مرکز پر خلائی اسٹیشن سے رابطے کے لیے موجود رہی۔

کی روبو کی خلابازوں کے ساتھ گفتگو کی کچھ ویڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG