|
کراچی _ "مقتولہ کچھ روز سے اپنے والدین کے گھر ہی تھیں جس بھائی نے اسے قتل کیا ہے وہ ویسے بھی غصے کا تیز تھا۔ اکثر محلے میں بھی اس کے لوگوں سے جھگڑے ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن وہ اپنی ہی بہن کو قتل کردے گا اس کا تو ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔"
یہ کہنا ہے کراچی کے 25 سالہ رہائشی احمد (فرضی نام) کا جو پہاڑ گنج کے علاقے میں مقیم ہیں جہاں 12 مئی کو غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ پیش آیا تھا۔
پینتیس سالہ جاوید میر نامی نوجوان نے 24 سالہ شادی شدہ سوتیلی بہن اقرا محسن کو سینے میں گولی ماری اور موقع واردات سے فرار ہو گیا۔ قتل کے بعد لاش کو سول اسپتال پوسٹ مارٹم کے لیے روانہ کیا گیا اور 13 مئی کو اقرا کی تدفین کردی گئی۔
قتل کی ایف آئی آر اقرا کے والد میر صمد خان کی مدعیت میں درج کی گئی جس میں لکھا گیا ہے کہ میر صمد رکشہ ڈرائیور ہیں اور کرائے کے مکان میں اپنی دو بیویوں اور بچوں سمیت رہائش پذیر ہیں۔
گھر چھوٹا پڑنے کے سبب وہ سامان دوسرے مکان میں شفٹ کر رہے تھے کہ انہیں اطلاع ملی کہ ان کے گھر پر چیخ و پکار اور ایک فائر کی آواز سنی گئی ہے۔ جب وہ گھر پہنچے تو ان کی بیٹی اقرا فرش پر بے سدھ پڑی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او فیض الحسن نے بتایا کہ یہ گھرانہ سات افراد پر مشتمل ہے۔ اقرا کے شوہر تین سال سے امریکہ میں مقیم ہیں جس کے سبب اقرا اپنی تین سالہ بیٹی کے ہمراہ میکے میں رہ رہی تھی۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق مقتولہ کے بھائی جاوید نے اقرا کو مبینہ طور پر سہیل نامی شخص سے ناجائز تعلقات کی بنیاد پر غیرت کے نام پر قتل کیا۔
اقرا کے والد میر صمد کے مطابق ان کے بیٹے نے اپنی بہن کا قتل سہیل نامی شخص کی وجہ سے کیا اس لیے سہیل کے خلاف کارروائی کی جائے۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ
کراچی شہر میں اس سے قبل اگست 2023 میں ایک والد نے بیٹی سمیت دو افراد کو غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا۔ تھانہ سچل کی حدود میں سرکاری اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر نے اپنی 17 سالہ بیٹی اور اس سے ملنے کے لیے آنے والے 20 سالہ نوجوان احسن کو اس وقت قتل کیا تھا جب وہ دونوں گھر کے باہر گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزم نے بیٹی کو چار اور اس کے ساتھ موجود لڑکے کو آٹھ گولیاں ماری تھیں۔ پولیس کے مطابق اس قتل پر ملزم نے کسی بھی قسم کی ندامت کا اظہار نہیں کیا تھا۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2023 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں 2016 سے 2022 تک غیرت کے نام پر 520 قتل ہوئے جن میں خواتین کی تعداد 333 اور مردوں کی تعداد 198 تھی۔
غیر سرکاری تنظیم کے مطابق سب سے زیادہ فیصل آباد، لاہور، جیکب آباد، کشمور، لاڑکانہ، نصیر آباد، رحیم یار خان، شکار پور، گھوٹکی، سکھر، پشاور اور سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اقرا کی نعش کا پوسٹ مارٹم کرنے والی پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے لیے آنے والی ایسی خواتین کی لاشوں کے بارے میں ہمیں کوئی نہیں بتاتا کہ یہ قتل غیرت کے نام پر کیا گیا ہے۔
اُن کے بقول کئی بار ایسے قتل کو خودکشی کے طور پر بھی دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے واقعات کئی بار دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں بعد میں اصل کہانی سامنے آتی ہے کہ یہ قتل کس وجہ سے کیا گیا۔ ڈاکٹر سمعیہ کا مزید کہنا تھا کہ "ایسے کیسز میں میرا مشاہدہ یہی رہا ہے کہ غیرت کے نام پر کیے جانے والے قتل میں غیرت کے علاوہ کوئی اور محرکات ہی ہوتے ہیں۔"
قانون کے باوجود شہروں میں ایسے قتل کی وجوہات کیا ہیں؟
کیا وجہ ہے کہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل اب دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ بڑے شہروں میں بھی نظر آنے لگے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں تحریک نسواں کی بانی اور کلاسیکل ڈانسر شیما کرمانی کا کہنا تھا خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے تو اس جرم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن یہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیرت کے نام پر عورتوں کو قتل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔
شیما کا کہنا تھا کہ ماضی میں سوشل میڈیا اسٹار قندیل بلوچ کا قتل ایک بہت بڑی مثال ہے جس میں اس کا بھائی گرفتار ہوا اور اقبالِ جرم کے باوجود والدین نے قاتل بیٹے کو معاف کردیا۔ ایسے میں ریاست اور قانون کی ذمے داری بنتی تھی کہ وہ مجرم کو سزا دیتا لیکن ایسا ہوا نہیں۔
شیما کرمانی کا مزید کہنا تھا کہ "میں نہیں سمجھتی کہ اس بات کا تعلق دیہات میں تعلیم کی کمی سے ہے۔ میرے نزدیک اس کا تعلق انسانیت، اخلاقیات اور صنفی برابری سے ہے۔"
اُن کے بقول، "ہمارا معاشرہ پدر شاہی مزاج رکھتا ہے چاہے وہ گاؤں ہو یا شہر، مرد کی یہ سوچ جو ہر عورت پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتا ہے۔ وہ کسی بھی طرح سے اس کنٹرول کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔"
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں اور سیکیورٹی حکام کے مطابق شہری علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی شرح دیہی علاقوں سے شہروں میں منتقل ہونے والے لوگوں میں زیادہ ہے۔
کراچی، اسلام آباد، لاہور اور پشاور میں قبائلی و دیہی علاقوں سے روزگار کی تلاش کے لیے نقل مکانی کرنا عام رجحان ہے اور ماہرین کہتے ہیں کہ تارکینِ علاقہ شہروں میں رہنے کے باوجود اپنی 'فرسودہ روایات' کو ترک نہیں کرتے جس کی وجہ سے شہروں میں بھی غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔
ویمنز ایکشن فورم کی بانی امر سندھو کہتی ہیں شہروں میں ایسے واقعات کے بڑھنے کے پیچھے ٹیکنالوجی تک سب کی رسائی اور ہر طرح کی معلومات کا حصول خاص کر شخصی آزادی کے تصور کا عام ہونا بھی ہے۔
سماج میں ٹیکنالوجی تو آ گئی ہے لیکن اب جب عورت اپنے لیے اس شخصی آزادی کو مانگتے یا اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آئے تو سماج میں موجود ایک خاص سوچ اس کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی فرزانہ باری کا کہنا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ دیہات میں جاگیرداری نظام، فرسودہ رسم و رواج، عقائد، جہالت زیادہ ہے۔ لیکن ایسے کیسز ہر جگہ ہو رہے ہیں۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی اور وکیل نگہت داد کا بھی خیال ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اب دیہی و شہری کا فرق ختم ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بڑے شہروں کے واقعات سوشل میڈیا اور صحافیوں کے زیادہ متحرک ہونے کے سبب منظر عام پر جلدی آجاتے ہیں لیکن دیہات میں ایسا نہیں ہے۔
نگہت داد کے مطابق ملک کے مختلف قصبوں، دیہات سے انہیں ہیلپ لائن پر ایسی فون کالز موصول ہوتی ہیں جن میں خواتین بتاتی ہیں کہ انہیں اپنی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی وجہ سے گھر والوں سے جان کا خطرہ ہے۔
سزاؤں پر عمل درآمد نہ ہونا بھی اہم وجہ ہے'
امر سندھو کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ایسے واقعات زیادہ رپورٹ ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس پر زیادہ بات ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نام نہاد غیرت کے قتل کئی دہائیوں اور صدیوں سے ہو رہے ہیں۔ لیکن اب عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے اٹھنے والی آوازوں اور سوشل میڈیا سے ملنے والی آگاہی کے سبب ایسے واقعات رپورٹ ہو جاتے ہیں۔
پولیس اب ان واقعات کو نظر انداز نہیں کرتی لیکن جب ملزم گرفتار ہو جائے تو کمزور تفتیش اور اثر و رسوخ کے باعث ایسے افراد کو عدالتیں ضمانت دے دیتی ہیں۔ ضمانت کے بعد یا اس دوران مقتول کے خاندان سے معافی یا لین دین کر کے ایسے کیسز کو بند کردیا جاتا ہے جس کو دیکھتے ہوئے جرائم پیشہ ذہنیت کے حامل لوگوں کو مزید حوصلہ ملتا ہے۔
فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل پر سزاؤں کا تناسب ایک فی صد سے بھی کم ہے جب ایسے واقعات جن میں صنفی جبر و ظلم پر لوگوں کو سزائیں نہیں ہوں گی اور سزا اور جزا کا تصور نہیں ہو گا تو یہ عمل ایسے مردوں کو یہ سب کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔
اُن کے بقول صرف معاشرے میں ہی نہیں ہماری پولیس، عدالتوں میں بھی صنفی تعصب موجود ہے تب ہی ایسے واقعات پر کڑی سزائیں نظر نہیں آرہیں۔ یہ نہیں ہے کہ پڑھے لکھے لوگ ظلم نہیں کرتے جیسے سارہ انعام اور نور مقدم کا قتل کرنے والے پڑھے لکھے مرد ہی تھے۔
ایسے واقعات میں کمی کیسے ممکن ہے؟
شیما کے مطابق، عورت کو مرد کے برابر سمجھا جائے اسے بھی انسان سمجھا جائے ان سب کا تعلق تعلیم سے زیادہ اقدار سے ہے۔ معاشرے کی سوچ کا بدلنا بہت ضروری ہے۔
اُن کے بقول تعلیم انسان کو شعور تو دے رہی ہے لیکن کیا ہمارے اسکولوں میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں چاہے وہ مرد ہو یا عورت، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا ذات سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس کی کمی ہمیں نظر آتی ہے ہمارا معاشرہ اب بہت تشدد پسند ہو گیا ہے۔
شیما کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں کمی اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب قاتلوں کو سخت سزائیں ملیں اور ریاست عورتوں کے تحفظ اور حقوق دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔