تحقیق دان کینسر پیدا کرنے والے ٹیومرز کے تدارک کے لیے ایک نئے طریقہ ِعلاج پر کام کر رہے ہیں۔ تحقیق دانوں نے مٹی میں پائے جانے والے ایک جرثومے (بیکٹیریم) کو ٹیومر میں داخل کرکے اس نئے طریقہ ِعلاج کو دریافت کیا ہے۔
ابھی تک یہ عمل تجرباتی طور پر پالتو کتوں پر کیا گیا ہے مگر تحقیق دانوں کو امید ہے کہ انہوں نے عام انسانوں کے لیے کینسر کے تدارک کے لیے ایک کارگر طریقہ ِعلاج ڈھونڈ لیا ہے۔
جرثومے یا بیکٹیریم کی مدد سے کینسر کے علاج کا خیال نیا اور اچھوتا نہیں ہے۔
تقریباً ایک صدی قبل بھی اس سے متعلق تجربات کیے گئے تھے۔ مگر کینسرکے علاج میں شعاعوں کے ذریعے علاج (ریڈی ایشن) اور کیمو تھراپی کے باعث جرثومے سے کینسر کے علاج کا خیال پس ِپشت چلا گیا۔
مگر اب سائنسدان جرثومے سے ٹیومرز کے علاج پر دوبارہ غور کر رہے ہیں۔
سائنسی جریدے ’سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن‘ میں سائنسدانوں نے رپورٹ کیا ہے کہ کس طرح بیکٹیریم ’سی نووی‘ کو جب 16 کتوں کے ٹیومرز میں داخل کیا گیا تو کتوں کے ٹیومرز یا تو سکڑ گئے یا بالکل ختم ہو گئے۔
تین کتوں میں سے بیکٹیریم داخل کرنے کے 21 دن کے اندر اندر ٹیومر ختم ہو چکا تھا۔ جبکہ اسی گروپ کے تین مزید کتوں کے ٹیومرز میں 30فی صدکمی دیکھی گئی۔
دوسری طرف ایک خاتون جنہیں ٹیومر تھا اور ان کے جسم میں خاصی حد تک پھیل چکا تھا، اس بیکٹیریم کی مدد سے ٹیومر ختم کرنے میں بہت مدد ملی۔
سائنسدانوں نے خاتون کے جسم میں بیکٹیریم داخل کرتے ہوئے اس میں تھوڑی تبدیلی بھی کی کیونکہ اگر اسے تبدیلی کے بغیر داخل کیا جاتا تو وہ جسم میں انفیکشن پیدا کر سکتا تھا جو کہ ہلاکت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ مستقبل قریب میں بیکٹیریل تھراپی اور کیمو تھراپی کو ملا کر کینسر سے بچاؤ کے لیے موثر طریقہ ِعلاج ڈھونڈا جا سکتا ہے۔