بجلی کا بریک ڈاؤن، 'خوشی والے گھر میں بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑے ہو رہے تھے'

امریکہ میں پیدا ہونے والے حمزہ نیو جرسی سے ایک ہفتہ قبل اپنی نئی نویلی بیوی سے ملنے کراچی آئے ہیں۔ ان کے لیے پیر کا دن کسی خوف ناک خواب سے کم نہ تھا۔ وہ ہر چند گھنٹے بعد اپنے سسرال والوں سے یہی سوال کرتے نظر آئے کہ "آپ لوگ اس ملک میں رہتے کیسے ہیں کوئی احتجاج کیوں نہیں کرتا؟"

لیکن حمزہ کو یہی جواب ملتا رہا کہ یہ وقت احتجاج کا نہیں ہے بھائی بلکہ جنریٹر کے لیے فیول کا بندوبست کرنے کا ہے۔

"گھر مہمانوں سے بھرا ہوا ہے شادی پر کچھ رشتے دار تو امریکہ اور لندن تک سے آئے ہوئے ہیں، صبح سویرے ٹینک میں پانی ختم ہوگیا اب سوچیں ہم پر کیا گزری ہو گی؟" یہ کہنا ہے کراچی کی رہائشی مسز شائستہ انوار کا جن کے بیٹے کی شادی 23 جنوری کو تھی جب کراچی سمیت پورا ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔

مسز شائستہ کے بقول "چھ بجے جب میں واش روم گئی تو معلوم ہوا کہ نلکوں میں پانی نہیں ہے جہاں مہمان ہوں وہاں پانی کا استعمال بھی زیادہ ہوگا۔ جب میں نے اپنے بیٹوں کو بتایا تو انہوں نے بھاگ دوڑ کر کے نو بجے تک ٹینکر کا تو بندوبست کرلیا کہ چلو جیسے ہی لائٹ آئے گی ہم موٹر چلا کر ٹینک بھردیں گے۔ لیکن ہم پر تو بجلی صبح کے 11 بجے تب گری جب معلوم ہوا کہ آج پورے پاکستان میں بجلی نہیں ہے۔"

شائستہ کا کہنا تھا کہ جنریٹر بھی کب تک چلتا، جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا خوشی والے گھر میں بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑے بڑھ چکے تھے۔ ایک ایسا ایونٹ جس کی تیاری آپ برسوں کریں اگر اس روز ایسا ہو تو کیا کیفیت ہوگی؟ پاکستان میں یہ ایک گھر کی کہانی نہیں تھی بلکہ بجلی نہ ہونے سے ہر طرف مسائل ہی مسائل تھے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں بجلی 50 ہرٹز کی فریکونسی پر کام کرتی ہے جس میں فلکچوئیشن آنے کی وجہ سے کسی پاور ہاؤس میں مسئلہ آیا، اور یوں پورے ملک میں ایک ساتھ بجلی بند ہوگئی۔ لوگوں کو محسوس ہوا کہ یہ معمول کی لوڈ شیڈنگ ہے شاید چند گھنٹوں تک بحال ہوجائے گی، لیکن جب خبروں سے معلوم ہوا کہ وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر یہ کہہ رہے ہیں کہ بجلی کی بحالی میں 12 گھنٹے سے زائد کا وقت لگ سکتا ہے تو لوگوں کے اوسان خطا ہوگئے۔

مریم خان کے مطابق وہ اُس وقت دفتر میں تھیں جہاں جنریٹر چل رہا تھا لیکن ان کا دھیان اپنے گھر کی طرف تھا جہاں ان کی والدہ اکیلی تھیں۔

ان کے بقول "دوپہر میں مجھے گھبراہٹ ہونے لگی کیوں کہ میری والدہ بزرگ ہیں اور انہیں ٹھیک سے نظر بھی نہیں آتا۔ گھر میں یو پی ایس بھی خراب تھا مجھے یہ ڈر تھا کہ وہ اندھیرے کے سبب کہیں گر نہ جائیں تو میں نے آفس سے جلدی اٹھنے کا فیصلہ کیا، لیکن جب تک میں گھر پہنچیں تو اندھیرا ہوچکا تھا اور امی خاصی پریشان تھیں۔"

مسزفرحت ناز کے مطابق "میرے لیے سب سے بڑی پریشانی کی بات یہ تھی کہ میرے فریج میں انسولین کا پیک ڈبہ موجود تھا۔ مہنگائی کے سبب ایک انسولین اب تقریباً 1500 روپے کی ہوچکی ہے، میرے بچوں نے میری سہولت اور مارکیٹ میں اس کی شارٹج کی وجہ سے ایک ساتھ اتنی انسولین لاکر رکھ دی تھی۔ اتنے گھنٹے گزر جانے کے بعد مجھے اس بات کی فکر کھائے جارہی تھی۔ میں نے اپنی بیٹی کو کال کر کے جب یہ بتایا تو اس نے کہا کہ آپ اسے فریزر میں رکھ دیں آگے اللہ مالک ہے کیا پتہ کل تک لائٹ نہ آئے۔"

فرحت ناز نے کہا کہ جب میں اپنی انسولین محفوظ کر رہی تھی تو میرے ذہن میں یہ سوچ آئی کہ شاید کوئی ایسا گھر بھی ہو جہاں مجھ جیسی کوئی مریضہ رہتی ہو اور وہاں ادویات کو محفوظ کرنے کا بندوبست نہ ہو، ہم اس دور میں رہتے ہوئے بھی پتھروں کے زمانے میں ہیں کیا؟

گزشتہ روز کی لوڈ شیڈنگ کے سبب اسپتال کے ایمرجنسی میں بھی افراتفری کے مناظر تھے۔ ڈاکٹر عظیم جو ایک نجی اسپتال میں کام کرتے ہیں ان کے مطابق یوں تو کسی بھی اسپتال کی ایمر جنسی میں رش رہتا ہی ہے لیکن کل ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ ان کے بقول کئی ایسے مریض جن کی حالت اسپتال میں داخل کرانے والی تھی، اسپتال انتظامیہ کی ہدایت پر ان سے معذرت کی جا رہی تھی۔

ڈاکٹر عظیم کا کہنا تھا کہ پورا اسپتال جنریٹر پر چل رہا تھا ایسے میں مزید مریضوں کا داخل کرنا ہمارے لیے ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔

یہ حال گھر اور اسپتالوں کا ہی نہیں بلکہ دفاتر کا بھی تھا جن کا دارومدار بجلی پر ہے۔ عمارہ عابدی ایک نجی بینک میں بطور آپریشن مینیجر کام کرتی ہیں۔ ان کے مطابق "مجھے صبح ساڑھے آٹھ بجے خبر ملی کہ آج ملک بھر میں بجلی کی عدم فراہمی ہے جس کے بعد میں نے سب سے پہلے جنریٹرز چلانے کے لیے فیو ل کا بندوبست کیا۔ وینڈر نے مجھے بتایا کہ فیول نہیں مل پارہا اس نے مجھے صرف 40 لیٹر فیول ارینج کر کے دیا جب کہ میرے جنریٹر میں 100 لیٹر کی گنجائش تھی۔"

عمارہ کا کہنا تھا کہ جرنیٹر کا فیول دوپہر تک پھر بینک کا نظام بیٹھ گیا اور ہم کئی لوگوں کے کیش ڈیپازٹ نہ لینے پر مجبور ہوگئے، انہیں بمشکل سمجھایا کہ جیسے ہی بجلی بحال ہوتی ہے ہم کیش جمع کریں گے۔ کل معمول سے کہیں کم ٹرانزیکشن ہوئیں جب کہ کئی کسٹمرز نے انتظار کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ٹی کی جانب سے بار بار مسائل کا سامنا بھی رہا، انہیں ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ وہ اے ٹی ایمز کو مینٹین کرنے کے لیے رات گئے تک برانچز میں رکے رہے۔ یہاں تک کہ کل سیکیورٹی ایک بڑا چیلنج تھی اور یہ ڈر تھا کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ نہ ہوجائے، جس کے سبب اضافی گارڈز کو برانچوں کے باہر مسلسل تعینات کیا گیا۔

پیر کو جہاں ایک طبقہ اپنے فون چارجنگ کے لیے پریشان تھا وہیں جن کے فون چل رہے تھے وہ میمز کو انجوائے کر رہے تھے۔

محمد عرفان جو ایک عزیز کے انتقال پر فیڈرل بی ایریا سے منگھو پیر جار ہے تھے انہیں گھپ اندھیرے کی آڑ میں کچھ موٹر سائیکل سواروں نے روکا اور ان سے موبائل فون اور کیش چھین کر فرار ہوگئے۔ لیکن پیر کو صرف عرفان نہیں بلکہ بہت سے افراد اس اندھیرے کے سبب شہر بھر میں لوٹ مار کا شکار ہوگئے۔

وہ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی حکومت کی جانب سے توانائی کی بچت کے لیے بازار جلدی بند کرنے کی تجویز پر ناراض تھا۔ پیر کو ان کے لیے کاروبار کرنا بھی ایک مشکل بن چکا تھا۔ لیکن اس دوران فوڈ ڈیلوری میں ریکارڈ اضافہ ہوا، گھروں میں اندھیرا اور گیس کی بندش کے سبب لوگوں نے یا تو ریسٹورنٹ کا رخ کیا یا پھر گھر پر ہی کھانا ڈیلیور کیا۔

فرقان فاسٹ فوڈ کا ایک چھوٹا سا کاروبار کرتے ہیں ان کے مطابق عام دنوں میں انہیں شام سے رات گئے تک دو سے تین گیس سیلنڈر استعمال کرنے پڑتے ہیں لیکن کل ان کے پاس کھانے کے اتنے آرڈر تھے کہ انہیں شام چار سے رات 10بجے تک 11 سیلنڈر استعمال کرنے پڑے۔

ان کے مطابق لوگوں کو سمجھانا مشکل ہوگیا تھا کہ بہت سے آئٹم ان کے پاس ختم ہوچکے تھے لیکن اس کے باوجود آرڈرز آتے رہے۔

پاکستان میں رات گئے ملک بھر میں بجلی کی بحالی کا کام شروع ہوا لیکن کراچی کے بہت سے ایسے علاقے بھی تھے جو رات 12 بجے بھی تاریکی میں ڈوبے نظر آئے۔

لوگو ں کا غم و غصہ، تشویش پھر صبر میں تبدیل ہوگیا، یہ پہلی بار نہیں ہوا اس سے قبل بھی اس قوم نے ایسی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رکھا ہے لیکن احتجاج کہیں نہیں ہوا صرف فیول، پانی اور کھانے پینے کا بندوبست ہی کیا گیا۔