رپورٹر ڈائری: 'گلا خراب ہے مگر نعرے بازی کرنا پڑے گی'

جمعرات کو قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس کے بعد یکم مارچ کو قومی اسمبلی کا دوسرا اجلاس 38 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔

قومی اسمبلی کے دوسرے روز کے اجلاس میں پہلے دن والا جوش اور حکمتِ عملی تو نظر نہیں آئی مگر اسے بھی ہنگامہ خیز اجلاس کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔

پہلے دن کی طرح دوسرے دن کے اجلاس میں بھی شیر افضل مروت اور کچھ اور اراکین عمران خان کے چہرے والے ماسک پہن کر ایوان کے اندر گھومتے رہے۔

یکم مارچ کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہونا تھا مگر تلاوت، نعت اور قومی ترانے کے بعد جیسے ہی اجلاس کی کارروائی شروع ہونے لگی تو سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے قومی اسمبلی کے پہلے روز کے اجلاس کی طرح عمران خان کی تصاویر والے پلے کارڈ اٹھا کر نعرے بازی شروع کر دی۔

سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو شدید اور مسلسل ہنگامہ آرائی سے بچنے کے لیے سنی اتحاد کونسل کی اراکین کو بات کرنے کے لیے فلور دینا ہی پڑا۔

Your browser doesn’t support HTML5

انتخابات میں مبینہ دھاندلی: 'امریکی ارکان کانگریس کے خط پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے'

فلور ملنے پر عمر ایوب جیسے بات کرنے لگے تو ان کا گلا خراب تھا اسپیکر نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "گلا خراب ہے میرے خیال میں بس کر دیں۔"

عمر ایوب نے جواب میں کہا کہ "گلا خراب ہے مگر نعرے بازی کرنا پڑے گی، گلا کٹ بھی جائے اپنے لیڈر کا ساتھ دیں گے۔"

عمر ایوب نے کہا کہ "اس ایوان میں اجنبی لوگ موجود ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جعلی مینڈیٹ پر ایوان میں آئے ہیں۔ ان لوگوں کو ایوان سے باہر نکالا جائے اور قیدی نمبر 804 کو وزیرِاعظم کی کرسی پر بٹھایا جائے۔"

عمر ایوب کو بات کرنے کا موقع ملنے کے باوجود سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے نعرے بازی اور شور شرابے کا سلسلہ جاری رکھا جس کے باعث اسپیکر کو نہ صرف ایک سے زائد مرتبہ عمر ایوب، بیرسٹر گوہر علی اور اسد قیصر کو بھی بولنے کی اجازت دینی پڑی۔ اس طرح آدھے گھنٹے کے بعد اسپیکر کے عہدے کے لیے 11 بج کر سات منٹ پر ووٹنگ شروع ہوئی جو ایک بج کر 47 منٹ پر مکمل ہو گئی۔

مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق 199 ووٹ لے کر تیسری بار اسپیکر منتخب ہو گئے جب کہ سنی اتحاد کونسل کے عامر ڈوگر 91 ووٹ لے سکے۔

نو منتخب اسپیکر ایاز صادق نے جب اپنی پارٹی قیادت اور اتحادی جماعتوں کی قیادت کا فرداً فرداً نام لے کر شکریہ ادا کیا تو اپوزیشن بینچز سے آواز آئی کہ "بوٹوں کا بھی شکریہ ادا کر دیں۔"

سنی اتحاد کونسل کے اراکین ووٹ کا حق استعمال کرنے کے بعد عمران خان کے حق میں نعرے لگاتے رہے جب کہ قومی اسمبلی کے دوسرے دن کے اجلاس میں بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو سخت اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا۔

جب میاں نواز شریف ایوان میں داخل ہوئے اور ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے بوتھ پر گئے تب مسلم لیگ (ن) کے اراکین "دیکھو دیکھو کون آیا ،شیر آیا شیر آیا" کے نعرے لگاتے رہے۔ سنی اتحاد کونسل کے اراکین "دیکھو دیکھو کون آیا چور آیا چور آیا" کے نعرے لگاتے رہے۔

جب نواز شریف کرسی پر آ کر بیٹھے تو سنی اتحاد کونسل کے اراکین ان کی کرسی کے سامنے پہنچ کر عمران خان کی تصاویر والے پلے کارڈ اٹھا کر نعرے بازی کرتے رہے۔ ایک وقت پر تو مسلم لیگ (ن) اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین بالکل آمنے سامنے کھڑے ہو کر ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

اس طرح کی نعرے بازی سنی اتحاد کونسل والوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں شہباز شریف کی آمد کے دوران بھی کی۔

سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف نعرے بازی سے گریز کیا صرف مسلم لیگ (ن) اور علیم خان ان کی نعرے بازی کا ہدف تھے۔ اسپیکر کے انتخاب کے بعد راجہ پرویز اشرف نے نو منتخب اسپیکر سردار ایاز صادق سے حلف لیا جس کے بعد اسپیکر کی کرسی نو منتخب اسپیکر کے حوالے کر کے رخصت ہو گئے۔

سردار ایاز صادق نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر انتخاب شروع کرایا۔ ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر پولنگ تین بج کر 22 منٹ پر شروع ہوئی اور پانچ بج کر 37 منٹ پر ختم ہوئی۔

پیپلز پارٹی کے سید غلام مصطفی شاہ 197 ووٹ لے کر ڈپٹی اسپیکر منتخب ہو گئے جب کہ سنی اتحاد کونسل کے جنید اکبر 92 ووٹ لے سکے۔

اسپیکر ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لیے تو سادہ اکثریت کے ووٹ لینا لازم نہیں ہے مگر تین مارچ کو قومی اسمبلی میں ہونے والے وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے انتخاب کے لیے 169 ووٹ درکار ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے ایاز صادق کو 199 ووٹ ملے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وزیرِاعظم کے انتخاب کے لیے درکار 169 سے زائد ووٹ حکمراں اتحاد کے پاس موجود ہیں۔