دہشت گردی کے معاملے پر امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ سال دہشت گردوں کے خلاف کچھ کارروائیاں کیں لیکن افغانستان اور بھارت کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا رہا۔
سال 2019ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں ایک مثبت کردار ادا کیا۔ لیکن پاکستان نے ابھی تک بھارت اور افغانستان کو نشانہ بنانے والے عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کوئی ایسی فیصلہ کن کارروائی نہیں کی جس سے ان گروہوں کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کمزور پڑے''۔
بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں خاص طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان اور اس سے منسلک حقانی نیٹ ورک اور بھارت کے خلاف کارروائیاں کرنے والے گروپ لشکر طیبہ اور اس سے منسلک جیش محمد کو ملک میں پناہ دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے فروری، 2019 میں بھارتی جموں و کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملے کے بعد دہشتگردوں کی مالی اعانت اور دہشت گردی کے واقعات روکنے کے حوالے سے چند اقدامات کیے۔
پاکستان کی جانب سے تشکیل دی گئی سال 2015ء کی انسداد دہشت گردی کی قومی حکمت عملی کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں تمام دہشت گرد تنظیموں کو بلا تفریق اور بلا تاخیر ختم کرنے سمیت ملک نے مشکل ترین پہلوؤں پر ابھی کام مکمل نہیں کیا۔
اگرچہ پاکستانی حکام نے دسمبر میں لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعید اور ان کے بارہ ساتھیوں پر فرد جرم عائد کی۔ لیکن، رپورٹ کے مطابق، اب تک انہوں نے 2008 کے لشکر طیبہ کے ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ جیش محمد کے بانی مسعود اظہر اور ساجد میر کے خلاف کوئی عدالتی کارروائی نہیں کی۔
رپورٹ کے مطابق، ''حکومتی تردیدوں کے باوجود خیال کیا جاتا ہے کہ مسعود اظہر اور ساجد میر کو پاکستانی ریاست کی حفاظت حاصل ہے''۔
ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان کو دہشتگردی کے خطرات کا سامنا رہا۔ 2018 کے مقابلے میں گزشتہ سال جانی نقصان میں کمی ہوئی، جو ہر سال ہونے والی کمی کی غماز ہے۔ تحریک طالبان پاکستان اور داعش ISIS-K پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں ملوث رہے۔ بلوچستان اور سندھ میں علیحدگی پسند گروپوں نے مختلف ٹارگٹس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔
دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر 2019 میں اس تنظیم نے اس معاملے پر پاکستان کی خامیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ لیکن، ساتھ ہی، یہ بھی کہا کہ ملک نے اس سلسلے میں کچھ اقدامات کیے ہیں۔ پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جو تنظیم کی گرے لسٹ میں آتے ہیں۔
سال 2018 میں پاکستان کو 1998ء کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے قانون کے تحت ایسے ملکوں میں شامل کیا گیا جن کی صورتحال پر خاص تشویش لاحق ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پر تشدد انتہا پسندی کو روکنے کے لئے پاکستان حکومت پانچ 'کیمپوں' میں مذہبی تعلیم کی درستگی کے ذریعے افراد کو انتہا پسندی سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، کچھ مدرسوں میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگرچہ قومی ایکشن پلان منصوبے کے تحت مدرسوں پر نظر رکھی جاتی ہے، لیکن بہت سے مدرسوں کا ابھی حکومت کے پاس باقاعدہ اندراج نہیں ہے۔
رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان نے انسداد دہشت گردی میں تعاون سے متعلق بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی۔