آزادی مذہب کی عالمی صورت حال میں ابتری: سالانہ رپورٹ

فائل

کمیشن نے کہا ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک کے مقابلے میں، پاکستان میں ناموس رسالت میں گستاخی کے الزام پر سب سے زیادہ لوگوں کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے یا عمر قید جھیلتے ہیں؛ جب کہ سعودی عرب میں مرتد ہونے کے الزام پر ایک سعودی شاعر اور فنکار کو موت کی سزا سنائی گئی، جن پر لادینیت پھیلانے کا الزام تھا

گذشتہ برس کے دوران، دنیا بھر میں مذہبی آزادی میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ بات اِس معاملے پر نظر رکھنے والے ایک امریکی ادارے نے پیر کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہی ہے۔

بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن نے کہا ہے کہ ’’دنیا کی مطلق العنان حکومتیں مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہونے کی پاداش میں، ضمیر کے قیدیوں کو پابند سلاسل کر دیتے ہیں، جن میں اکثریت مسیحی اور مسلمانوں کی ہوتی ہے؛ ساتھ ہی، یورپ میں، یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف کٹرپَن کے مظاہرے میں اضافہ دیکھا گیا ہے‘‘۔

اِس آزاد سرکاری ادارے کا کہنا ہے کہ ادھر دنیا بھر میں درپیش اُن تکالیف میں کوئی کمی نہیں آئی جس کا سبب لاکھوں مہاجرین ہیں جو اپنے وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور نئے ملکوں کی جانب رُخ کیا ہے، جس میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو مذہبی مظالم کا شکار ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ضمیر کے قیدی اذیت جھیلتے ہیں جنھیں مذہب سے متعلق اصولوں پر حکومتیں گرفت میں لاتی ہیں، اور یہ معاملہ حیران کُن طور پر دنیا بھر میں عام ہے، جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں موجود ہے، جو معاملہ اِس ضرورت کو آشکار کرتا ہے کہ قوانین اور پالیسیاں، جن کی پاداش میں اُنھیں قیدخانوں میں ڈالا گیا، اُن سے برآمد ہونے والے نتائج کو مد نظر رکھا جائے‘‘۔

کمیشن نے کہا ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک کے مقابلے میں، پاکستان میں ناموس رسالت میں گستاخی کے الزام پر سب سے زیادہ لوگوں کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے یا عمر قید جھیلتے ہیں؛ جب کہ سعودی عرب میں مرتد ہونے کے الزام پر ایک سعودی شاعر اور فنکار کو موت کی سزا سنائی گئی، جن پر لادینیت پھیلانے کا الزام تھا، حالانکہ بعدازاں، سزا میں نرمی برت کر انھیں آٹھ سال قید اور 800 کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ازبکستان میں، جو مسلمان اکثریتی ملک ہے، انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو مظالم کے شکار مسلمانوں کی حمایت کے الزام پر قید کی سزا دی گئی۔ ویتنام میں تقریباً تمام مذہبی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاتی۔

رپورٹ میں مقدمہ چلائے بغیر سزا سنانے، زنا بالجبر، جسمانی زیادتی، بچوں کا اغوا، عبادت کے مقامات کو تباہ کرنا اور زبردستی (مذہب) تبدیل کرنے کے حربوں کے استعمال پر داعش کے شدت پسند جہادیوں کی مذمت کی گئی ہے۔
کمیشن نے دنیا کے 13 ملکوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جہاں مذہبی اقلیت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں چین کی مثال دی گئی ہے جہاں گرجا گھر کے اوپر سے صلیب کے نشان کو ہٹانے کے احکامات نہ ماننے پر قید کی سزا دی جاتی ہے؛ ایران میں ’’خدا کے خلاف دشمنی‘‘ کے الزام پر مذہبی اقلیتوں کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے؛ اور شمالی کوریا میں مذہبی عقائد رکھنے کی پاداش میں ہزاروں افراد کو ’لیبر کیمپس‘ میں رکھنے کی سزا دی جاتی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ شام اور عراق میں ایسی حکومتیں ہیں جو لوگوں کو داعش کے دہشت گردوں سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے کسی قسم کی کوئی کارگر تدبیر نہیں کرتیں۔

اس ادارے نے، جو صدر براک اوباما، امریکی کانگریس اور محکمہٴ خارجہ کی مشاورت کا کردار انجام دیتا ہے، کہا ہے کہ نو ایسے ممالک ہیں جنھیں مذہبی آزادی کی عدم فراہمی پر’’خاص طور پر تشویش کا باعث قرار دیا جانا چاہیئے‘‘، جن کے نام ہیں: میانمار، چین، اریٹریا، ایران، شمالی کوریا، سعودی عرب، سوڈان، ترکمانستان اور ازبکستان۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اِس فہرست میں آٹھ مزید ملکوں کو شامل کیا جانا چاہیئے، جو ہیں: جمہوریہٴ وسطی افریقہ، مصر، عراق، نائجیریا، پاکستان، شام، تاجکستان اور ویتنام۔