پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق جون میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں 50 فی صد سے زائد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بینک دولت پاکستان کی جانب سے پیر کو جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جون میں دو ارب 46 کروڑ 62 لاکھ ڈالرز بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے وطن منتقل کیے گئے۔ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران ایک ارب 63 کروڑ 64 لاکھ ڈالرز ترسیلاتِ زر کی صورت میں منتقل کیے گئے تھے۔
مالی سال 2020 کے دوران مجموعی طور پر 23 ارب 12 کروڑ ڈالرز سے زائد رقم پاکستان منتقل کی گئی جب کہ 2019 میں 21 ارب 73 کروڑ ڈالرز سے زائد رقم پاکستان بھجوائی گئی تھی۔
ایک سال کے دوران ترسیلاتِ زر میں بھی 6.4 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سال ترسیلاتِ زر میں اضافے سے اس مد میں ملنے والی رقم ملک کی کل برآمدات کے حجم سے بھی بڑھ گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ جون 2020 کی آخری سہ ماہی جب دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وجہ سے معاشی حالات زیادہ ابتری کا شکار تھے، اس عرصے میں بھی ترسیلات میں 7.8 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
جون 2020 میں بھی سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر سعودی عرب سے موصول ہوئیں جو چھ کروڑ 19 لاکھ ڈالرز تھیں جس کے بعد امریکہ سے چار کروڑ 52 لاکھ ڈالرز اور متحدہ عرب امارات سے چار کروڑ 31 لاکھ ڈالرز سے زائد کی رقوم پاکستان بھیجی گئیں۔ سعودی عرب سے بھیجی گئی رقوم میں اس ماہ کے دوران 42 فی صد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترسیلاتِ زر میں اضافے کی وجہ بہت سے ملکوں کی جانب سے جون میں لاک ڈاؤن میں نرمی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سے پاکستانیوں کو رقوم کی منتقلی میں مشکلات کا سامنا تھا۔
کرونا وبا کے باعث پاکستان میں معاشی صورتِ حال خراب ہونے پر بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنے اہل خانہ اور دوستوں کی مدد کے لیے رقوم بھیجیں۔
مرکزی بینک کے مطابق ان عوامل کے علاوہ حکومتی پالیسیوں نے بھی کردار ادا کیا جن میں چھوٹی رقوم بھیجنے والوں کو ٹیکس میں چھوٹ بھی شامل ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق کمپنیز کو دی جانے والی مراعات کے باعث قانونی اور ڈیجیٹل ذرائع سے رقوم کی متنقلی میں بھی اضافہ ہوا۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ بھی اسٹیٹ بینک کی رپورٹ سے اتفاق کرتے ہیں۔
ان کے مطابق اس اضافے کی کئی وجوہات میں سے ایک اسٹیٹ بینک کی سخت مانیٹرنگ اور بینکنگ چینلز کے ذریعے پیسے بھیجنے کی حوصلہ افزائی ہے۔
اُن کے بقول خراب معاشی حالات میں بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے زیادہ رقوم بھیجنا بھی ایک وجہ ہے۔
ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ بیرون ملک پاکستانی ملک میں مشکل معاشی حالات کی وجہ سے اب زیادہ رقم پاکستان میں مقیم خاندان اور دوستوں کو بھیج رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حوالہ اور ہنڈی کا کام کرونا کے عرصے میں مشکلات کا شکار ہوا ہے تاہم اس کے باوجود بھی اس روایتی طریقے سے رقم بھجوانے میں کمی تو ضرور آئی ہے مگر مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق اس کی وجہ بنیادی طور پر ملک کے دور دراز علاقوں میں خواندگی کی شرح میں کمی اور بینک اکاونٹس نہ ہونا ہے۔
لیکن معاشی ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ ایک ماہ کے دوران ترسیلاتِ زر میں اضافہ کوئی ایسی چیز نہیں جس پر بے حد خوشی کا اظہار کیا جائے۔
ان کے مطابق چوں کہ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی دنیا بھر بالخصوص مشرق وسطیٰ میں معاشی بحران کی وجہ سے نوکریوں سے برخاست کیے جانے کے بعد وطن واپس آ رہے ہیں۔ وہ وہاں کمائی گئی اپنی کل جمع پونجی بھی ساتھ لا رہے ہیں۔ لہذٰا اس سے ترسیلاتِ زر میں اضافہ نظر آ رہا ہے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ چوں کہ عید الاضحیٰ قریب ہے، اس لیے بہت سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے عید کے موقع پر اخراجات اور بالخصوص قربانی کے لیے بھی زیادہ رقوم پاکستان منتقل کر رہے ہیں۔
اُں کے بقول تاریخی طور پر بھی دیکھا گیا ہے کہ ملک میں جب بھی بحران کے ادوار آئے ہیں تو اس دوران ترسیلاتِ زر بڑھ جاتی ہیں جیسا کہ سیلاب، زلزلہ اور موجودہ معاشی صورتِ حال بھی اس کی عکاس ہے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کے بقول یہ حکومت کا کوئی کارنامہ نہیں ہے اور نہ اس کی کسی معاشی پالیسی کے اثرات ہیں۔ اگر کوئی اس کا کریڈٹ لینا چاہے تو وہ لیتا رہے لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتِ حال سے نکلنے کے بعد حکومت کو ایک بار پھر مختلف ممالک بالخصوص تیل پیدا کرنے والے ممالک کے ساتھ تعلقات میں وہاں کام کرنے والے پاکستانیوں کی افرادی قوت بڑھانے پر زور دینا چاہیے۔
اُن کے بقول اس سے مستقبل میں ترسیلات زر بڑھانے کے مزید مواقع پیدا کیے جا سکیں گے۔