|
اسلام آباد — امریکہ کی وفاقی حکومت کے ایک آزاد ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے دورِ حکومت کے دوران مذہبی آزادی میں 'مسلسل اور نمایاں' کمی دیکھی گئی ہے۔
یو ایس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اپنی رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ طالبان حکام نے کسی بھی ایسے عمل یا رویے کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے جو اسلام کے بارے میں ان کی سخت تشریح سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔
طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان سے امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔
افغانستان کے ڈی فیکٹو حکام نے سخت اسلامی قوانین کو نافذ کر دیا ہے جن میں ذاتی آزادیوں پر بڑے پیمانے پر قدغن لگائی گئی اور افغان خواتین کو زندگی کے بیشتر شعبوں میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔
یو ایس سی آئی آر ایف کے مطابق سخت گیر رہنماؤں نے مذہبی علما کو خاموش کرایا، مذہبی اقلیتیوں کو اپنی مذہبی رسومات و تقریبات سے روکا جب کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کی نقل و حرکت اور تعلیم تک رسائی کو روکنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان کے دور میں افغانستان میں ان کے نزدیک ہونے والی اسلامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر موت اور سخت جسمانی سزائیں دینے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔
ان سزاؤں میں سرِعام پھانسی، کوڑے مارنا، سنگسار کرنا، مارپیٹ کرنا اور زبردستی سر منڈوانے جیسی عوامی تذلیل کی کارروائیاں شامل ہیں۔
طالبان نے امریکی ادارے کی اس رپورٹ پر فوری کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی وی او اے کے بھیجے گئے سوالات کا جواب دیا کیوں کہ افغانستان میں اس ادارے پر پابندی عائد ہے۔
امریکی ادارے کی رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب طالبان کے زیرِ انتظام سپریم کورٹ نے ایک مرد اور عورت کو "ناجائز تعلقات" کا جرم ثابت ہونے پر افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سرِعام کوڑے مارنے کا اعلان کیا۔
اس معاملے کی مزید تفصیل نہیں بتائی گئی تاہم یہ کہا گیا کہ خاتون کو 32 جب کہ مرد کو 39 کوڑے مارے گئے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد سے خواتین سمیت تقریباً 600 افراد کو سرِعام کوڑے مارے گئے ہیں۔ ان اقدامات پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے جسمانی سزاؤں کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
جون کے مہینے میں بنیاد پرست حکام نے ہم جنس پرستی، زنا اور دیگر 'غیر اخلاقی جرائم' کا مرتکب قرار دینے کے بعد 14 خواتین سمیت 63 افراد کو شمالی افغانستان کے ایک اسپورٹس اسٹیڈیم میں کوڑے مارے۔
طالبان نے قصاص کا حوالہ دیتے ہوئے قتل کے مرتکب کم از کم پانچ افغانوں کو سرِ عام پھانسی بھی دی۔
SEE ALSO: امریکہ کا افغانستان کو دہشت گردی کا لانچنگ پیڈ بننے سے روکنے کا عزمامریکہ سمیت مختلف ممالک نے انسانی حقوق کے خدشات، خواتین پر تعلیم اور ملازمت کی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
افغانستان میں 12 سال اور اس سے زائد عمر کی لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں یہ پابندی ہے، اس کے علاوہ خواتین کے یونیورسٹی میں داخلے پر بھی پابندی ہے۔
اس کے علاوہ افغان خواتین کو اقوامِ متحدہ سمیت بہت سے سرکاری اور نجی شعبوں میں کام کرنے سے روکا گیا ہے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی 2024 کی سالانہ رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ واشنگٹن طالبان کے زیرِ انتظام افغانستان کو مذہبی آزادی کی مبینہ "سنگین خلاف ورزیوں" پر بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت "خاص تشویش والا ملک" قرار دے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں کے ذمے دار طالبان حکام پر پابندیوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
طالبان اقوامِ متحدہ کی رپورٹس اور بین الاقوامی ہیومن رائٹس گروپس کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یا خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں اور اسے اپنی اسلامی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔
طالبان حکومت کا اصرار ہے کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کو اسلامی اصولوں کے تحت تحفظ حاصل ہے اور طالبان کا "عدالتی نظام" قرآن اور شریعت یا اسلامی قانون کے مطابق لوگوں کو "انصاف فراہم" کرتا ہے۔