ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ کے بعد اکثر افراد عمر بھر کے لیئے معذروی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ کئی برسوں کی تحقیق کے باوجود فی الحال اس صورت حال کا کوئی مؤثر علاج دریافت نہیں کیا جا سکا۔ لیکن بعض ایسے افراد ڈاکٹروں کے لیئے بھی امید کی کرن ہیں جو ایسی چوٹ کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں کامیاب ہوئے اور اب دوسروں کی مدد کر رہے ہیں۔ ایک ایسے ہی شخص کا نام پیٹ رمررفیلڈ ہے۔
وہ امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں واقع ایک طبی امداد ی مرکز میں ہر ماہ ایک ہفتہ کام کرتے ہیں۔ وہ اس اس سینٹر کے ترجمان ہیں، اورعطیات اکھٹے کرنے کے امور کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مریضوں کو سہارا دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی زندگی میں کوئی بہتری لانا، یہ جانتے ہوئے کہ اُن پر کیا گزر رہی ہے۔ میں خود ایسے مسائل سے گزر چکا ہوں۔ میرے ذہن سے بھی بہت سے ایسے خیال گزرے تھے جو اب ان کے ذہنوں سے گزرتے ہیں۔ ان کی مدد کرنا میرے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔
1974 ءمیں ایک حادثے کے بعد رمر فیلڈ کو گردن میں چار جگہ چوٹ آئی تھی۔ اس وقت اس چوٹ کا علاج نہ ممکن سمجھا جاتا تھا۔ ڈاکڑوں کا خیال تھاکہ وہ 72 گھنٹوں سے زیادہ نہیں جی پائیں گے۔ لیکن انہیں رمر فیلڈ کے حوصلے کا اندازہ نہ تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ہفتے بعد ڈاکٹروں نے میرے والد سے دوبارہ ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ میں نے ایک رکاوٹ عبور کر لی ہے ۔ اُنہیں یقین ہو گیا تھا کہ میں زندہ بچ جاوں گا، لیکن اُنہیں بہت زیادہ بہتری کی امید نہیں تھی۔
رمر فیلڈسال بھر امدادی سینٹر میں رہے۔ پھر انہوں نے اپنے والد کے ساتھ مل کر اپنی بحالی کی ذمہ خود اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ مرحلہ بہت مشکل تھا۔ میں ہر دن پانچ گھنٹے مشق میں گزارتا تھا۔ جسم کے جس حصے میں حرکت ہوتی تھی ، میں اس سے کوئی نہ کوئی بوجھ اٹھانے کی کوشش کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ میری صحت بہترہونے لگی۔ اس عمل کے ساڑھے تین سال بعد میں اس قابل ہو گیا کہ اپنے جسم کےدائیں حصے کو 100 فٹ تک گھسیٹ سکوں۔ اس کے بعد مجھے کچھ دیر آرام کرنا یا سونا پڑتا تھا۔
17سال بعد وہ بالآخر فالج کی گرفت توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ رمر فیلڈ فالج سے پوری طرح صحت یاب ہونے والے خوش قسمت انسان ہیں۔ اور ان کی صحت یابی کو بہت سے لوگ معجزہ سمجھتے ہیں۔
تمام تر توقعات اور امیدیں پار کر لینے کے بعد اب وہ کچھ ریکارڈ بھی توڑنا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں کچھ بھاگنے دوڑنے کے قابل ہو گیا تومیں نے فورا ہی ریڑھ کی ہڈی کی تحقیق کے لیے چندہ جمع کرنے کےلیے دوڑ میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
انہوں نے صرف دوڑ میں ہی حصہ نہیں لیا۔ بلکہ وہ 1992 میں Iron man triathlon میں بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے ریس کار چلانے کےلیے لائسنس لیا اور زمین پر تیز رفتار برقی گاڑیوں کا ریکارڈ توڑا۔ گو ان کی صحت یابی پر دنیا بھر کے ڈاکٹر حیران ہیں لیکن ڈاکٹر جان مکڈانلڈ کہتے ہیں کہ رمرفیلڈانتہا درجے کی ذہنی قوت کے مالک ہیں۔
ریڑھ کی ہڈی کے مسائل سے منسلک ایک معلوماتی ادارے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن افراد کی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ لگتی ہے، ان میں سے صرف ایک فی صد ہی پوری طرح صحت یاب ہو پاتے ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہناہے کہ ہمیں امید ہے کہ رمر فیلڈ کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر تحقیق کے ذریعے ہم یہ جان سکیں گے کہ وہ پوری طرح صحت یاب کیسے ہوئے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے یہ مشاہدے دوسرے مریضوں کے کام آئیں گے۔
صحت یابی کا مرحلہ بہت طویل اور کٹھن ہے۔ اور کسی بھی چیز کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پٹ رمرفیلڈ اس سنٹر کے مریضوں کو حوصلہ دیتے ہیں۔ اور ہر قدم پر ان کے ساتھ چلتے ہیں۔