رمضان میں سحر و افطار ماہرِ خوراک کی نظر میں

  • مدثرہ منظر

رمضان آتے ہی دنیا بھر کے مسلمان روزہ رکھتے ہیں ۔ دن بھر کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں مگر ساتھ ہی سحر اور افطار کا اہتمام کھانے پینے پر توجہ مرکوز کر دیتا ہے۔

طرح طرح کے پکوان، افطاری کی مخصوص ڈشز، سحری کے پکوان گویا روزہ رکھ کر صرف کھانے کو یاد رکھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے مگر بعض اوقات مرغن اور تلی ہوئی اشیا چٹپٹے اور مصالحے دار کھانے معدے کو تلپٹ کر دیتے ہیں اور روزے کے مقدس احساس میں بیزاری گھل جاتی ہے۔

چنانچہ اس عبادت کو بیزاری سے بچانے کیلئے ہم نے بات کی ایک ایسی ڈاکٹر سے جو غذا سے ہی اپنے مریضوں کا علاج کرتی ہیں اور تندرست رہنےمیں مدد کرتی ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

رمضان میں سحر و افطار ماہر خوراک کی نظر میں

ڈاکٹر شگفتہ فیروز فیملی میڈیسن اور انٹیگریٹو میڈیسن میں پریکٹس کرتی ہیں اور رفاح یونیورسٹی میں لائف سٹائل میڈیسن کے شعبے کی سربراہ بھی ہیں۔

وہ کہتی ہیں رمضان میں ہم کچھ ایسے کھانے اپنے سحر و افطار میں متعارف کروا دیتے ہیں کہ جو گیارہ ماہ ہم نہیں کھاتے۔ اور یوں اپنے معدے کو اوورلوڈ کر دیتے ہیں اور روزے میں ڈی ٹاکسنگ کا جو مقصد ہے وہ پورا نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا ہے کہ سحری کو بھی ناشتہ ہی سمجھنا چاہیئے اور اس میں اناج اور پروٹین ضرور ہونی چاہیئے۔ اناج تو روٹی سے مل جاتا ہے اور پرو ٹین انڈے، گوشت، دالوں اور پنیر وغیرہ سے مل سکتا ہے۔ بس پراٹھے نہ کھائیں، کیونکہ پراٹھا دیر سے ہضم ہوتا ہے اور معدے کو آرام نہیں ملتا۔

ڈاکٹر شگفتہ فیروز کہتی ہیں کہ اکثر ہم چائے آخر میں پیتے ہیں مگر ان کے خیال میں سب سے پہلے پانی، پھر تھوڑا سا دہی اور پھر چائے پی جائے؛ اور پھر سحری ختم کرنے سے پہلے تھوڑی سی گرین ٹی پی لی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ چائے بعد میں پینے سے تیزابیت پیدا ہوتی ہے۔

افطاری میں وہ کہتی ہیں سب ساتھ بیٹھتے ہیں اور پھر پیٹ بھر کر اٹھتے ہیں۔ ایسا نہ کریں۔ کھجور یا فروٹ چاٹ سے روزہ افطار کرنے کے بعد نماز پڑھیں اور پھر مزید کھائیں پئیں۔

ان کے خیال میں سرد ملکوں میں رہنے والوں کو گرم مشروب اور گرم ملکوں کے رہنے والوں کو افطار میں لیموں کی سکنجبین، لسی یا ملک شیک وغیرہ لینا چاہیئے مگر بہت سرد مشروبات نہ لیے جائیں۔ ان کے خیال میں افطاری اور کھانا کھانے میں کافی وقفہ ہونا چاہیئے اور روزہ کھولنے اور پانی پینے میں بھی کم از کم 20، 25 منٹ کا وقفہ ہونا چاہیئے۔

رمضان اور پکوڑوں کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور ماہرِ غذا ڈاکٹر شگفتہ کہتی ہیں کہ پکوڑے صحت کیلئے اچھے ہیں اگر دیسی گھی یا مکھن میں تلے جائیں، کوکنگ آئل میں نہیں۔ وہ کہتی ہیں بیسن صحت کیلئے مفید ہے۔

زندہ رہنے کیلئے کھانا اور کھانے کیلئے زندہ رہنا۔ اس کا فرق رمضان میں زیادہ سمجھ میں آتا ہے۔ پھر بھی ڈاکٹر شگفتہ فیروز کہتی ہیں کہ کھانے پینے میں اعتدال نہ رہا تو نہ زندگی رہے گی اور نہ کھانا۔

وہ کہتی ہیں یکسانیت کسی بھی عمل کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رہنے دیتی۔ خوراک بھی بدل بدل کر کھائیے اس سے جسم کا مدافعتی نظام بھی مضبوط ہو گا اور زندہ رہنے کی خواہش بھی بڑھے گی۔ پھر بھلے آپ زندہ رہنے کیلئے کھائیں یا کھانے کیلئے زندہ رہیں۔ فیصلہ آپ کا۔