یہ اگست 2013 کی بات ہے جب 36 سالہ مظفر خان اپنی اہلیہ یاسمین اور ڈیڑھ سالہ بچے عبیر خان کے ہمراہ اپنی کار میں گھر جارہے تھے کہ شفیق موڑ کے نزدیک کار نالے میں جا گری اور بارش کے پانی میں بہہ گئی۔
گھنٹوں جاری رہنے والے ریسکیو آپریشن میں پاک بحریہ کے غوطہ خوروں کی مدد سے اگلے روز ماں اور بچے کی لاش جائے وقوعہ سے کئی کلو میٹر دور مل گئی لیکن مظفر خان کی لاش ڈھونڈنے میں مزید دو دن لگے۔
"اس دل خراش واقعے کو میں کبھی نہیں بھول سکتا،" یہ کہنا تھا عبد الرزاق کا جو ایدھی سینٹر میں ایمبولینس ڈرائیور ہیں۔
اُن کے بقول بارش کے دوران بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گھپ اندھیرا ہو جاتا ہے اور پانی جمع ہونے کے سبب سڑک اور نالے میں تفریق کرنا ممکن نہیں رہتا۔
کراچی میں اس بار بھی مون سون کی بارشوں کے دوران برساتی نالے اُبل پڑے اور گندا پانی سڑکوں پر بہتا ہوا شہریوں کے گھروں میں داخل ہو گیا۔ عموماً ہر سال نالوں کا بھرنا، گھروں میں پانی کا داخل ہونا اور شہریوں کی املاک کا نقصان شاید اُن کا مقدر بن گیا ہے۔
محکمۂ موسمیات نے رواں برس مون سون کے دوران کراچی میں 20 فی صد بارش زیادہ ہونے کی پیش گوئی کرنے کے ساتھ اربن فلڈنگ کا الرٹ بھی جاری کیا تھا۔
اربن فلڈنگ کے خدشے کے پیشِ نظر سندھ حکومت نے ورلڈ بینک کے تعاون سے برساتی نالوں کی صفائی کی مہم کا آغاز کیا تھا۔
اس حوالے سے صوبائی وزیرِ بلدیات ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ نالوں کی صفائی کی مہم کے لیے ورلڈ بینک نے ایک ارب 20 کروڑ روپے کا فنڈ دیا ہے جس کی مدد سے نالہ صفائی مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔
اُن کے بقول اس مہم میں سندھ حکومت کے ساتھ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی)، سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ، واٹر بورڈ اور دیگر ادارے مل کر کام کر رہے ہیں۔
میئر کراچی وسیم اختر نے بھی ورلڈ بینک کی جانب سے فنڈز کی فراہمی پر مسرت اظہار کیا تاہم وہ نالہ صفائی مہم شروع کرنے میں تین ماہ کی تاخیر پر تشویش کا شکار ہیں۔
ان کے بقول صرف تین بڑے اور قدرتی نالوں کی صفائی میں تین ماہ لگ جاتے ہیں جب کہ بارشوں کا ایک دور آ چکا ہے اور ابھی مزید بارشیں ہونا باقی ہیں۔
نالوں کی صفائی میں مسئلہ کیا ہے؟
سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کے مطابق بارش کے دوران سڑکوں پر گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑا ہونے اور کئی علاقے زیرِ آب آجانے کی بنیادی وجہ برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونا ہے۔
ان کے بقول نالوں کی صفائی کی ذمہ داری کراچی میونسپل کارپوریشن اور ضلعی حکومتوں کی ہے جس کے لیے صوبائی حکومت ہر سال شہری حکومت کو کروڑوں روپے کا فنڈ فراہم کرتی آئی ہے۔
نالوں کی صفائی میں سب سے بڑا مسئلہ فنڈز کی کمی یا عدم فراہمی کو قرار دیتے ہوئے میئر کراچی وسیم اختر نے بتایا کہ سندھ حکومت نے 2016 میں 43 کروڑ روپے دیے جب کہ اگلے برس عدالتی واٹر کمیشن کے حکم پر نالوں کی صفائی کے لیے 50 کروڑ روپے جاری کرنے پر مجبور ہوئی۔ لیکن اخراجات ایک ارب سے زائد آئے جس کے لیے بقیہ رقم کے ایم سی ای نے اپنے محدود وسائل سے ادا کی۔
وسیم اختر کے مطابق گزشتہ برس وفاق کو مداخلت کرنا پڑی اور فوج کے انجینئرنگ ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن نے نالوں کی صفائی کی اور اب رواں برس تین ماہ کی تاخیر سے نالہ صفائی مہم ورلڈ بینک کی مالی امداد سے شروع کی گئی ہے۔
کراچی میونسپل کارپوریشن کے ڈائریکٹر مشینری مشیر احمد کے نزدیک نالوں کی صفائی میں دوسرا بڑا مسئلہ مشینری کی کمی اور مشینری کا خراب ہونا ہے۔ ان کے بقول 40 ایکسی ویٹر اور 80 ڈمپرز کے ساتھ 42 بڑے نالوں کی صفائی بروقت کرنا مشکل ہو جاتا ہے لہذا مشینری کرائے پر بھی لینا پڑتی ہے۔
کراچی کی 403 کچی آبادیوں میں اکثر نالوں پر قائم ہیں۔ اس حوالے سے ڈائریکٹر انکروچمنٹ کے ایم سی بشیر صدیقی نے بتایا کہ فنڈز کی فراہمی اور مشینری کی دستیابی کے بعد نالوں کی صفائی میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ وہاں آباد کچی آبادیاں ہیں جن کی وجہ سے 100 فٹ چوڑے نالے پانچ یا چھ فٹ چوڑی نالیوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے نالوں پر قائم کچی آبادیوں کو ہٹانے سے متعلق سوال پر کہا کہ عدالتی حکم کی تعمیل کو یقینی بنایا جایا جائے گا تاہم لوگوں کو بے گھر کرنے سے پہلے متبادل جگہ کا انتظام کرنے میں وقت لگ رہا ہے۔ اُن کے بقول نالوں کی صفائی کا مسئلہ فنڈز کی کمی نہیں بلکہ فنڈز میں خرد برد اور بری کارکردگی ہے۔
صفائی کے بعد نالوں کے دوبارہ بھر جانے کا ذمہ دار کون؟
نالوں کی صفائی کے بعد وہاں دوبارہ کچرا بھرنے سے متعلق سوال پر میئر کراچی نے بتایا کہ شہری غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچرا نالوں میں پھینک دیتے ہیں اور صفائی کے دوران نالوں سے تعمیراتی ملبہ، ٹوٹے دروازے اور یہاں تک کہ ناکارہ فرنیچر تک بر آمد ہوتا ہے۔
چیئرمین ضلع شرقی معید انور نالوں کی صفائی کے باوجود ان کے دوبارہ بھر جانے کو کچرے کو ایک مؤثر اور مربوط نظام کے تحت ٹھکانے لگانے کا انتظام نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں۔
ان کے بقول صفائی کے فوری بعد ہی نکالے جانے والے ملبے کو ٹھکانے نہیں لگایا جاتا جس سے ملبہ دوبارہ نالے میں گر جاتا ہے۔
زبیر چنہ ورلڈ بینک کے کمپیٹیٹو اینڈ لِو ایبل سٹی کراچی (کلک) کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ اس بار نالوں کی صفائی کے بعد کنارے پر رکھے گئے ملبے کو ٹھکانے کے لیے کافی پُر امید ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملبے کو جام چکرو کے مقام پر لینڈ فل سائٹ تک پہنچایا جائے گا اور کراچی کے سائٹ ایریا میں واقع ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہو گا۔
سماجی کارکن اور شہری امور کے ماہر احمد مختار نالوں کے دوبارہ بھر جانے کی ایک وجہ برساتی نالوں میں شہر بھر کا فضلہ چھوڑنا بتاتے ہیں۔ ان کے بقول اس کی ذمہ دار کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ہے جب کہ سیوریج کے پانی کی ٹریٹمنٹ بھی نہیں ہوتی۔
اس حوالے سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر خالد محمود شیخ نے بتایا کہ شہر میں تین بڑے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ اور چھ سیوریج پمپنگ اسٹیشن کام کر رہے ہیں جب کہ ادارے کے پاس سیوریج کی 23 کلیننگ مشین، 23 سکشن مشین اور 23 جیٹنگ مشین موجود ہیں۔ ان سب کی مدد سے یومیہ 50 ملین گیلن سیوریج کے پانی کو ٹریٹمنٹ کے صنعتی مقاصد کے طور پر استعمال کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔
کراچی میں یومیہ 13 ہزار ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے۔ سندھ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ سات ہزار ٹن جام چکرو، حب ندی کے قریب گونڈ پاس میں دو ہزار ٹن تک کچرا ٹھکانے لگاتا ہے تاہم شہر کا باقی کچرا برساتی نالوں میں کھپ جاتا ہے یا سڑکوں کی زینت بنا رہتا ہے۔
کراچی کے شہری کب بارشوں سے کھل کر لطف اندوز ہوسکیں گے؟
سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ مون سون سے پہلے نالوں کی صفائی مکمل کر لی جائے اور جب بارشیں شروع ہوں تو کراچی کے تین یا چار بڑے قدرتی نالوں کے داخلی اور خارجی راستوں پر مشینری لگا کر پانی کے ساتھ آنے والا کچرا صاف کیا جاتا رہے تو پانی کے بہاؤ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔
ان کے بقول نالوں میں پانی کا بہاؤ رہے گا تو لوگ بارش کے دوران مرکزی شاہراؤں پر کرکٹ کھیل کر لطف اندوز ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس حوالے سے موجودہ میئر کراچی وسیم اختر کا مؤقف اس کے برعکس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک کراچی کو کسی ایک ادارے کے ماتحت نہیں کر دیا جاتا جس کے پاس واٹر بورڈ، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کے بھی مالی اور انتظامی اختیارات نہ ہوں، اُس وقت تک معاملات سنبھلنا مشکل ہیں۔
جماعت اسلامی کراچی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمان سابق ناظم نعمت اللہ خان کے دور جیسے بااختیار بلدیاتی نظام اور ایمان دار قیادت کو کراچی کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔
کراچی سے منتخب ہونے والے وفاقی وزیر علی زیدی کراچی میں مکمل اختیارات کے ساتھ ایک تگڑے میئر کو کراچی کے لیے نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما کئی بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ میئر کراچی کے پاس تمام تر اختیارات ہیں لیکن وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
اختیارات کی کمی کی شکایت ہو یا بری کارکردگی۔ دونوں صورتوں میں خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔