سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم عمران خان اور انٹیلی جینس اداروں پر الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعظم نے میری اہلیہ اور بچوں کی غیر قانونی طریقہ سے جاسوسی کروائی۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ پر تعصب کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی دائر کردہ پٹیشن کو فل کورٹ میں سننے کی استدعا کی ہے۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اختیار کیا ہے کہ عمران خان میری اہلیہ اور بچوں کی جاسوسی کرواتے رہے، اور اس مقصد کے لیے پاکستان کے خفیہ آلات اور فنڈز کا ناجائز استعمال کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل بھول رہی ہے صدر نے ریفرنس وزیر اعظم کی ہدایت پر دائر کیا۔ وزیر اعظم نے اہلیہ اور بچوں کو اس معاملے میں گھسیٹا ہے، اور ان کے ذاتی معمولات کی تحقیقات کی گئیں۔ اس کے ساتھ اہلیہ اور بچوں کی ذاتی دستاویزات کا بھی جائزہ لیا گیا اور مخلتف اداروں، جن میں نادرا، ایف آئی اے، ایف بی آر اور وزارت داخلہ شامل ہیں، ان کے ذریعے میرے خاندان کی تفصیلات بھی اکھٹی کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے خلاف بے بنیاد اور غیر متعلقہ تفصیلات اور دستاویزات پر بے بنیاد ریفرنس بنایا گیا۔ اس ریفرنس میں تصویر کا ایک رخ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی جب کہ حقیقت ریفرنس سے بالکل برعکس ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے بھی ریفرنس کی غلط کاریوں کو نظر انداز کیا اور وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے ارادوں کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے تمام ہمدردیاں بھی وزیر اعظم سے ظاہر کیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میری درخواست کے ساتھ دیگر درخواست گزاروں کی درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔ میری درخواست میں بہت اہم آئینی سوالات اٹھائے گئے ہیں جو عدلیہ کی آزادی اور صدر مملکت کی آزاد رائے سے متعلق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل اور اس کے ممبران نے ریفرنس نمبر 427 کے فیصلے میں تعصب ظاہر کیا۔ موجودہ چیئرمین کونسل (چیف جسٹس آف پاکستان) صدر عارف علوی کی طرف سے دائر ریفرنس سننے کے مجاز نہیں ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے درخواست میں کہا کہ حکومت کی جانب سے ان کی اور ان کے خاندان کی کردار کشی پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ میں نے بار بار اپنی کردار کشی کی شکایت کی، مگر کسی بھی جگہ سے کوئی جواب نہیں ملا جس یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان کی کردار کشی کی اجازت اعلیٰ حکومتی سطح سے دی گئی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدر عارف علوی کو خط لکھے جانے کا ریفرنس اگرچہ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے مسترد کر دیا گیا۔ لیکن فل کورٹ کے لیے دائر درخواست میں فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ صدر کے خلاف خط لکھنے کا ریفرنس کے خارج ہونے کی انہیں بڑی قیمت ادا کرنا پڑی ہے، کیونکہ تنقیدی آردڑ انہیں بغیر سنے جاری کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے اسلام آباد کے ایک غیر معروف صحافی کی درخواست پر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا جس میں ان پر اہلیہ اور بچوں کے نام بیرون ملک جائیداد اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ تاہم، جسٹس فائز عیسیٰ نے الزامات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ وہ ان کے زیر کفالت نہیں ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس ریفرنس کی باقاعدہ سماعت سے قبل صدر عارف علوی کو دو خطوط بھی تحریر کیے جن میں اس ریفرنس کی بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ بیرون ملک جائیداد ان کے بچوں اور اہلیہ کی ہے جو ان کے زیرکفالت نہیں ہیں۔ لہذا، اسے اثاثوں میں ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
اپنے خط میں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے اس حوالے سے قائم کیے جانے والا ریفرنس خارج کر دیا ہے جب کہ اثاثہ جات سے متعلق ریفرنس کی سماعت ہو رہی ہے۔ لیکن، جسٹس فائز عیسیٰ نے عدالت عظمیٰ میں پٹیشن دائر کی ہے کہ اس ریفرنس اور ان پر عائد الزامات کو کھلی عدالت میں سنا جائے اور اب انہوں نے نئی پٹیشن کو فل کورٹ میں سننے کی استدعا کی ہے جس پر ابھی تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔