روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے کہا ہے کہ ان کا ملک یوکرین کے تمام باشندوں کے لیے روسی شہریت کا حصول آسان بنانے پر غور کر رہا ہے۔
روسی صدر کے اس بیان پر یوکرین کا سخت ردِ عمل متوقع ہے جس کے بعض علاقوں کا روس نے اپنے ساتھ بزور طاقت الحاق کر رکھا ہے یا وہاں روس نواز باغی قابض ہیں۔
صدر پوٹن نے رواں ہفتے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت یوکرین کے ان دو علاقوں کے رہائشیوں کو روس کی شہریت دینے کا عمل آسان کردیا گیا تھا جو روس نواز باغیوں کے قبضے میں ہیں۔
روس کی سرحد سے متصل یوکرین کے مشرقی علاقے دونیسک اور لوہانسک گزشتہ کئی برسوں سے کیو حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں اور بلواسطہ طور پر ماسکو کے زیرِ اثر ہیں۔
ان علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت روسی زبان بولتی ہے۔
روس کے اس اقدام پر یوکرین کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور بین الاقوامی تنظیم 'او ایس سی ای' نے سخت مذمت کی تھی۔ 'او ایس سی ای' مشرقی یوکرین میں یوکرین اور روس نواز باغیوں کے درمیان 2015ء میں طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کی نگران بھی ہے۔
لیکن بین الاقوامی احتجاج کے باوجود ہفتے کو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر نے کہا کہ ان کا ملک اب روسی شہریت کے بآسانی اور تیزی سے حصول کے منصوبے کا دائرہ یوکرین کے تمام شہریوں تک بڑھانے کا سوچ رہا ہے۔
روس اس سےقبل بھی سابق سوویت ریاستوں سے علیحدگی یا آزادی کا اعلان کرنے والے علاقوں کے رہائشیوں کو روسی شہریت دے چکا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ روسی حکومت کے اس اقدام کا مقصد بتدریج ان علاقوں کے روس سے الحاق اور وہاں روس کی فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرنا ہوتا ہے۔
اس سے قبل روس نے 2002ء میں جارجیا سے علیحدہ ہونے والے دو علاقوں ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کے شہریوں کو روسی شہریت دینے کی پالیسی شروع کی تھی۔ اس پالیسی کے کچھ ہی برسوں بعد ان علاقوں میں روسی پاسپورٹ کے حامل افراد کی تعداد 20 فی صد سے بڑھ کر 85 فی صد تک جاپہنچی تھی۔
بعد ازاں جب روس نے اگست 2008ء میں جارجیا سے جنگ شروع کی تھی تو اس نے یہ کہہ کر ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا میں اپنی فوجیں داخل کردی تھیں کہ وہ وہاں روسی شہریوں کی حفاظت کے لیے جا رہی ہیں۔
روسی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ روس نے مشرقی یورپ کے ملک اور سابق سوویت ریاست مالدووا سے الگ ہونے والے علاقے ٹرانس نییستر کے بھی نصف سے زائد شہریوں کو اپنی شہریت دے دی ہے۔
روس کے اس اقدام کے بعد مالدووا کی حکومت اس تشویش کا شکار ہے کہ روس کوئی بھی بہانہ بنا کر ٹرانس نییستر کو اپنا حصہ بناسکتا ہے۔