روس کے صدر ولادیمر پوٹن کی یوکرینی ہم منصب سے ملاقات

یوکرین اور روس کے صدور

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا تھا کہ پوٹن کی یوکرین کے صدر اور یورپی رہنماؤں سے میلان میں ملاقاتیں "مشکل مرحلہ" ثابت ہوئیں۔ توقع ہے کہ یوکرین کا بحران ایشیا۔یورپ کانفرنس پر غالب رہے گا۔

روس کے صدر ولادیمر پوٹن اور یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشنکو کے درمیان ملاقات ہوئی ہے جسے مشرقی یوکرین میں جاری تنازع کے حل اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی تازہ ترین کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔

جمعہ کو اٹلی کے شہر میلان میں کئی دیگر یورپی رہنماؤں نے بھی ایشیا-یورپ کانفرنس میں شرکت کی لیکن ایسا کوئی خاص اشارہ نہیں ملا جس سے یہ کہا جا سکے کہ مشرقی یوکرین میں جنگ بندی اور قدرتی گیس کی فراہمی جیسے معاملات پر کوئی پیش رفت ہو سکے گی۔

قبل ازیں جمعہ ہی کو صدر پوٹن نے جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخیل سے ملاقات کی تھی۔ کریملن کا کہنا ہے کہ یوکرین کے بحران کے حل کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان اختلاف برقرار رہا۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا تھا کہ پوٹن کی یوکرین کے صدر اور یورپی رہنماؤں سے میلان میں ملاقاتیں "مشکل مرحلہ" ثابت ہوئیں۔

"مذاکرات درحقیقت مشکل ہیں۔ یہ غلط فہمیوں اور عدم اتفاق سے بھرپور ہیں۔ انھوں نے صرف پیش رفت سے متعلق اپنے اپنے خیالات کا تبادلہ کیا۔"

ان کا کہنا تھا کہ پوٹن، پوروشنکو، مرخیل اور فرانس کے صدر فرانسس اولاں کے درمیان جمعہ کو دیر گئے مزید بات چیت بھی متوقع ہے۔

توقع ہے کہ یوکرین کا بحران ایشیا۔یورپ کانفرنس پر غالب رہے گا۔ اس میں ماسکو اور مغربی حکومتیں گیس کی فراہمی کے تنازع اور چھ ماہ سے جاری روس نواز علیحدگی پسندوں اور یوکرین کی حکومت کے درمیان لڑائی ختم کروانے پر بات چیت ہو گی۔

جون میں ماسکو نے یہ کہہ کر یوکرین کو اور اس کے راستے یورپ کو گیس کی فراہمی روک دی تھی کہ اس کے ذمے پانچ ارب ڈالر کی رقم واجب الادا ہے۔ فریقین تاحال اس حکمت عملی پر اتفاق نہیں کر سکے ہیں جس کے تحت یہ فراہمی دوبارہ شروع ہو سکے۔

موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی یورپ میں گیس کی طلب میں اضافہ بڑھتا جارہا ہے۔

چانسلر آنگیلا مرخیل نے جمعرات کو کہا تھا کہ یہ روس کے لیے "پہلا اور سب سے ضروری" کام ہے کہ وہ گزشتہ ماہ یوکرین کے ساتھ ہونے والے عارضی امن معاہدے کے کلیدی نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔

روس کی طرف سے یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی حمایت اور جزیرہ نما کرائمیا کو اپنا ساتھ شامل کرنے کے معاملے پر روس اور مغربی ملکوں کے تعلقات شدید متاثر ہوئے ہیں۔