|
لاہور -- پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے اسموگ سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھنے پر ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کر دی ہے جس کے تحت اسپتالوں میں عملے کی چھٹیاں بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔ حکومت نے اسکول مزید ایک ہفتہ بند رکھنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
ابتدائی طور پر ہیلتھ ایمرجنسی کا نفاذ صوبے کے سب سے زیادہ آلودہ رہنے والے شہروں لاہور اور ملتان میں کیا گیا ہے۔ مریضوں کی تعداد بڑھنے پر پنجاب حکومت نے آئندہ ہفتے لاک ڈاؤن لگانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔
دونوں اضلاع ملتان اور لاہور میں اسکول، کالجز اور یونی ورسٹیز کو آن لائن کیا جا رہا ہے۔
یہ اعلان جمعے کو سینئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب نے لاہور میں نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسموگ ہیلتھ کرائسس میں تبدیل ہو چکی ہے۔ موٹر سائیکل پر ایمرجنسی کے علاوہ باہر نہ نکلیں اور ماسک کا استعمال کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسموگ چھ ماہ یا ایک سال میں ختم نہیں ہو گی اس کے لیے تین، تین ماہ کے شارٹ ٹرم پلان لا رہے ہیں۔
ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ ریسٹورنٹس میں شام چار بجے تک ڈائن اِن ہو سکے گا جب کہ اس کے بعد رات آٹھ بجے تک ٹیک آوے کی اجازت ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملتان اور لاہور میں ہفتے سے اگلے اتوار تک تعمیرات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
سانس کے مریضوں کی تعداد ایک ماہ میں ڈیڑھ لاکھ
سینئر وزیر پنجاب کا کہنا تھا کہ پنجاب بھر سے ایک ماہ کے دوران سانس کی بیماریوں کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ تک جا پہنچی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ جس طرح کرونا پر احتیاطی تدابیر اختیار کیں اسی طرح اسموگ پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ اسموگ بھارت اور پاکستان کے عوام کا مسئلہ ہے۔ دونوں ممالک کو ایک ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔
دوسری جانب صوبہ پنجاب میں اسموگ سے متاثرہ افراد کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔
محکمہ صحت پنجاب کے مطابق اسموگ کے باعث شہری سانس، دمے، دل کے امراض اور فالج میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
دِل، دمے اور فالج کے مریضوں میں اضافہ
محکمہ صحت پنجاب کے مطابق لاہور جو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں مسلسل سرِ فہرست رہا ہے وہاں اکتوبر میں اسموگ سے ہونے والی بیماریوں کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
صرف لاہور میں اکتوبر میں بیماریاں کی شرح 5.41 فی صد سے بڑھ کر 5.74 فی صد ریکارڈ ہوئی جن میں ناک اور گلے کی انفیکشن کے کیسز میں 4.99 فی صد کے مقابلے میں 5.30 فی صد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔
دس سالہ ہیلتھ پالیسی بنانے کی ضرورت
پنجاب بھر میں اسموگ سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھنے پر طبی ماہرین نے پنجاب حکومت کو اسموگ کے خاتمے کے لیے 10 سالہ پالیسی بنانے کی سفارش کی ہے۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونی ورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر صومیہ اقتدار سمجھتی ہیں کہ جس قدر اسموگ کی شدت بڑھ چکی ہے، اِس سے بچا تو نہیں جا سکتا لیکن احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اسموگ سے بچاؤ کے لیے بھی وہی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو سانس کی بیماری سے بچنے کے لیے کی جاتی ہیں۔
اُن کے بقول اس میں ماسک کا استعمال سرِفہرست ہے، اسموگ سب سے پہلے آنکھوں کو متاثر کرتی ہے جس کے لیے آنکھوں کو بچانا ضروری ہے۔ اسموگ کے دِنوں میں جوسز اور پانی کا استعمال زیادہ کریں تاکہ ٹاکسک میٹریل جلدی انسانی جسم کے اندر سے نکل جائیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسے تمام مریض جنہیں سانس کی بیماریوں کا یا امراضِ قلب کے مسائل ہیں وہ زیادہ احتیاط کریں۔ ایسے تمام مریض اپنی دوائیاں وقت پر لیں۔
ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے مزید کہا کہ فضائی آلودگی سے دِل کے امراض اور ہارٹ اٹیک کی شرح میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ فضائی آلودگی سے طویل المدتی صحت کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔