|
لاہور — پاکستان کے صوبے پنجاب کے ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا معاملہ موضوعِ بحث ہے اور بعض مبصرین کے مطابق ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے اس فیصلے پر سوالات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
'عوامی نمائندوں کی تنخواہوں میں نظرثانی' کے نام سے یہ بل وزیر برائے پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمان نے پیش کیا تھا جسے کثرتِ رائے سے منظور کیا گیا۔ اس بل کی منظوری کے بعد ارکان کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
پیر کو اسمبلی سے پاس ہونے والے بل کے مطابق اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار روپے سے بڑھا کر چار لاکھ روپے کردی گئی ہے۔
اسی طرح صوبائی وزرا کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر نو لاکھ 60 ہزار روپے کی گئی ہے۔
بل کی منظوری کے بعد اب اسپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 25 ہزار روپے سے بڑھ کر نو لاکھ 50 ہزار روپے جب کہ ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے سے بڑھ سات لاکھ 75 ہزار روپے ہوگی۔
اِسی طرح پارلیمانی سیکرٹریز کی تنخواہ 83 ہزار روپے سے بڑھا کر چار لاکھ 51 ہزار روپے اور اسپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر چھ لاکھ 65 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
بل میں صوبائی حکومت کے مشیروں کی تنخواہ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے اور اسے ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر چھ لاکھ 65 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔
اس بل پر اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے اعتراض کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا یہ بل پارلیمانی قوانین سے متعلقہ ایکٹ کے مطابق ہے؟ جس پر اسپیکر ملک محمد احمد خان نے جواب دیا کہ یہ بل موجودہ قوانین کے مطابق بالکل درست ہے اور یہ حکومت کا اچھا اقدام ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں اراکینِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا تھا۔
’سوال تو ہوں گے‘
پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں کو یکدم بہت زیادہ بڑھا دینا معنیٰ خیز بات ہے۔
ان کے بقول یہ اضافہ ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ایسے وقت میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اچانک زیادہ اضافہ کرنے پر سوال تو ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پنجاب میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہیں دیگر صوبوں کے مقابلے میں کم تھیں اور یہی رجحان کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان کے قرضوں میں اضافہ: 'بیرونی فنڈز پر انحصار قرض اتارنے میں بڑی رکاوٹ ہے'انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی نے تین سال قبل اپنے ارکان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا تھا۔ پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہیں اب ان کے برابر ہوگئی ہیں۔
احمد بلال محبوب کے بقول عمران خان کے دور میں جب پنجاب میں چوہدری پرویزِ الٰہی اسپیکر تھے تو ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت عمران خان کی ہدایت پر بل واپس بھیجا گیا تھا اور اس وقت کے گورنر نے بل پر دستخط کرنے سے منع کیا تھا۔ لیکن بعد ازاں وہ بل خاموشی سے پاس ہو گیا تھا۔
ماہرِ معیشت پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم سمجھتے ہیں کہ ملک کی معیشت اِس وقت اِس بڑے اضافہ کو برداشت نہیں کر سکتی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے تو مزدوروں کی اجرتوں میں اضافہ کیا جائے اور اُس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔
پنجاب میں حکومت کی جانب سے کم سے کم اُجرت سینتیس ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق مہنگائی کے اِس دور میں کم سے کم اُجرت پر عملدرآمد بمشکل ہی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ ملک میں جاری مہنگائی میں اگرچہ رکنِ اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار روپے مناسب نہیں۔ لیکن اسے ڈیڑھ یا دو لاکھ روپے تک کیا جا سکتا تھا۔ اس تنخواہ میں اچانک اتنا بڑا اضافہ درست نہیں ہے۔
دوسری جانب پنجاب کی وزیرِ اطلاعات عظمیٰ بخاری سمجھتی ہیں کہ تنخواہیں زیادہ نہیں بڑھیں۔ ان کے بقول جو تنخواہیں بڑھی ہیں ان پر ساڑھے تین لاکھ روپے ٹیکس لگے گا۔
لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران وائس آف امریکہ کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے اور معیشت بہتر ہورہی ہے۔ لوگوں کو ہر سطح پر ریلیف مل رہا ہے اور آگے بھی ملے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ مہنگائی سے ہر شخص متاثر ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن اب مہنگائی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ارکانِ اسمبلی کا اور کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی میں وزیرِ اعلیٰ سمیت بہت سے ایسے لوگ ہیں جو تنخواہیں نہیں لے رہے ہیں۔
SEE ALSO: دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے منصوبے پر احتجاج؛ معاملہ ہے کیا؟تنخواہوں میں بڑا اضافہ کیوں؟
ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ وفاقی بجٹ میں صوبوں کو جو ادائیگیاں کی گئیں ہوں گی اُس میں ہر شعبے کے لیے الگ الگ پیسے رکھے گئے ہوں گے۔ جب ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں ایک دم اتنا بڑا اضافہ کیا گیا ہے تو کسی دوسری مد سے یا کسی دوسرے شعبے سے پیسے نکالے گئے ہوں گے۔
ان کے بقول تعلیم، صحت، پانی، بنیادی سہولتوں یا کسی دوسرے شعبے کے بجٹ میں کٹوتی کرکے ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں کے لیے پیسے دیے گئے ہوں گے کیوں کہ جو سالانہ بجٹ پاس کیا گیا اس میں ان تنخواہوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی پیسے رکھے گئے ہیں۔
ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ حکومت اَب اِن اخراجات کو فنانس بل میں ڈالے گی۔
پلڈاٹ کے صدر احمد بلال کی رائے میں اِس کی وجہ شاید ارکانِ اسمبلی یہ سمجھتے ہوں کہ اگر وہ بار بار اپنی تنخواہوں میں اضافہ کریں گے تو اُنہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا حل یہ نکالا ہے کہ ایک دم ہی تنخواہوں میں زیادہ اضافہ کر لیا جائے اور بار بار کی تنقید سے بچا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں جب انہوں نے ارکانِ اسمبلی سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ماضی میں جب بلوچستان اسمبلی نے تنخواہوں میں ایک دم بڑا اضافہ کیا تو اُس پر کتنی تنقید ہوئی؟ اگر ہر مرتبہ 10 فی صد یا 50 فی صد اضافہ کرتے رہیں گے تو ہر بار خبر لگے گی اور تنقید ہو گی۔
کیا ارکانِ اسمبلی کی کارکردگی بھی بہتر ہو گی؟
احمد بلال بتاتے ہیں کہ اُن کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا ارکان کی کارکردگی سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا۔
اُن کے بقول عمومی طور پر ارکانِ اسمبلی کی اکثریت ایسے طبقے سے تعلق رکھتی ہے جن کے طرزِ زندگی میں تنخواہوں کا بڑھنا یہ نہ بڑھنا بہت زیادہ معنی نہیں رکھتا۔
ان کے بقول جہاں تک کارکردگی کی بات ہے تو وہ الگ ہے۔ اس میں عوامی دباؤ، تھانہ کچہری کے مسائل، روز مرہ کے کام، لوگوں کی توقعات، حلقے کے عوام کے سوالات اور عوام کے لیے کیا بہتر ہے، ان سب کے لیے ارکان کام کرتے ہیں کیوں کہ اسی بنیاد پر انہیں ووٹ ملتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ارکانِ اسمبلی کو اپنی کارکردگی بہتر بنا کر اِن تنخواہوں میں اضافے کا جواز فراہم کرنا چاہیے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود پاکستان کے لیے قرضے لوٹانا مشکل کیوں؟کیا عوام پر تنخواہوں میں اضافے کا بوجھ پڑے گا؟
ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ تنخواہوں میں اضافہ کا اثر براہِ راست عوام پر پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایک طرف دعویٰ کر رہی ہے کہ ملک میں مہنگائی کم اور افراطِ زر کی شرح گھٹ رہی ہے تو دوسری جانب تنخواہوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
ان کے بقول اگر واقعی مہنگائی کم ہو رہی ہے تو اُس کا اثر ارکانِ اسمبلی پر بھی ہونا چاہیے۔
احمد بلال کی رائے میں بھی ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا عوام پر یقیناً بوجھ پڑے گا۔ جو تنخواہیں بڑھی ہیں اس کا اثر قومی خزانے پر پڑے گا اور قومی خزانے کا مطلب ہے کہ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہو گا جس کے بعد ٹیکسوں کی شرح میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا۔