پلاؤ بمقابلہ بریانی، ٹویٹر پر گھمسان کا رن

پلاؤ بمقابلہ بریانی

پاکستانی سوشل میڈیا میں پلاؤ اور بریانی کے عاشقان کے درمیان جنگ کا سماں ہے۔ دونوں اطراف سے اپنے پسندیدہ کھانے کی اہمیت کے حق میں دلائل دئے جا رہے ہیں۔

بریانی کے حق میں بہت سے صارفین نے یہ دلیل دی کہ اصل بریانی تو کراچی میں ملتی ہے۔ لاہور والوں کو بریانی بنانی ہی نہیں آتی اس لئے بریانی کی شان میں گستاخی کی جا رہی ہے

پاکستانی سوشل میڈیا پر اس وقت بریانی اور پلاؤ کے عاشقان کے مابین ایک گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ دونوں طرف سے متواتر جملوں اور پھبتیوں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ جگہ جگہ پولنگ ہو رہی ہے کہ کون سا کھانا زیادہ مزے دار ہے اور جو جو صارفین ایسے ٹویٹر پول کروا رہے ہیں وہ یا تو #TeamBiryani یا #TeamPulao کے ہیش ٹیک استعمال کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ کھانے کے لئے مہم بھی چلا رہے ہیں۔

یہ سب بلاگر مہوش اعجاز کی اس ٹویٹ سے شروع ہوا جس میں انہوں نے لکھا کہ جو لوگ پلاؤ کو بریانی سے بہتر سمجھتے ہیں انہیں اپنے دماغ کا معائنہ اور اپنی ذائقے کی حس چیک کروانی چاہئے۔

اس ٹویٹ کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر جنگ چھڑ گئی۔ عاشقان پلاؤ نے اس ٹویٹ کو سنجیدگی سے لیا اور مہوش اعجاز کے دعوے کو غلط قرار دیا۔

بلاگر وقاص گورایہ نے لکھا کہ بریانی تو غیر ملکی کھانا ہے، مقامی کھانا پلاؤ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سکندر اعظم کو بھی پلاؤ پیش کیا گیا تھا۔ انہوں نے بریانی کی تاریخ پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ چاولوں میں چار آلو اور بوٹیاں چند مسالحوں کے ساتھ ڈال دو تو بریانی بن جاتی ہے۔

صحافی علی وارثی نے لقمہ دیا کہ پلاؤ تو پوری دنیا میں بنایا جاتا ہے۔ بریانی کچھ بھی نہیں، پلاؤ میں بدعت ہے، اور وہ بھی غیر معروف!

اس موقع پر مہوش اعجاز نے اعلان کر دیا کہ بریانی کے مخالف ٹویٹس اعلان جنگ کے مترادف ہوں گی۔

بریانی کے حق میں بہت سے صارفین نے یہ دلیل دی کہ اصل بریانی تو کراچی میں ملتی ہے۔ لاہور والوں کو بریانی بنانی ہی نہیں آتی اس لئے بریانی کی شان میں گستاخی کی جا رہی ہے۔

جہاں بریانی کے حق میں دلائل اس کی حتمیت تک محدود رہے وہیں عاشقان پلاؤ نے پلاؤ کے تاریخی اور ثقافتی پہلو پر روشنی ڈالی۔

معروف بلاگر احمر نقوی نے اس سلسلے میں کچھ ٹویٹس کا سلسلہ لکھا۔

انہوں نے لکھا کہ اگرچہ پہلے تو میرا خیال تھا کہ بریانی پلاؤ کی ہی بہتر قسم ہے جو ہندوستان کے شہروں میں پروان چڑھی۔ اور جسے بعد میں ہندوستان کی اشرافیہ نے اپنا لیا۔ جیسے حیدرآباد کے نظام کے ہاں بریانی کی 140 اقسام بنائی جاتی تھیں۔

انہوں نے لکھا کہ اگرچہ اس دعوے کو مان لیں کہ بریانی پلاؤ کی ہی بہتر قسم ہے جسے وسط ایشیا سے مسلمان ہندوستان میں لائے مگر ہم یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ پلاؤ جو وسطی ایشیا سے لے کر مغربی ایشیا تک مرغوب ہے دراصل ایک ہندوستانی کھانا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ پلاؤ کا لفظ مہابھارت سے لے کر قدیم سنسکرت کی کتابوں میں ملتا ہے۔ اسی لئے پلاؤ کا پاکستان کے خطے سے قدیم رشتہ ہے۔

ٹویٹر پر اینکر وجیہ ثانی نے اس بحث میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے چند اشعار پوسٹ کئے۔

ذائقے کا یقیں ہے بریانی

ذوق کی ہم نشیں ہے بریانی

تم پلاؤ پہ جان دیتے ہو

تم نے کھائی نہیں ہے بریانی

ایسے ہی بہت سے بلاگرز نے اپنے اپنے ٹویٹر ہینڈلز پر بریانی اور پلاؤ کی پولنگ کروائی۔

صحافی اور تجزیہ نگار اعجاز حیدر نے بحث کو سمیٹنے کے انداز میں کہا کہ بھئی عاشقان بریانی بری بریانی کی نسبت اچھا پلاؤ کھانے کو تیار رہیں گے جب کہ عاشقان پلاؤ برے پلاؤ کے مقابل اچھی بریانی کو پسند کریں گے۔

پلاؤ اور بریانی کی یہ بحث تو چلتی رہے گی، اختتام صحافی مدیحہ انور چوہدری کی پوسٹ سے کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ جب ان کے نانا گھر میں پلاؤ پکنے پر یہ قطعہ پڑھا کرتے تھے۔


جہاں بھی پلاؤ پکایا گیا ہے
زمیں سے فلک تک بھپارا گیا ہے
اسی غم میں شیطان مارا گیا ہے
کہ مومن پہ یہ کیا اتارا گیا ہے!