حکومت پی ٹی ایم کے مطالبات پر غور کرے: تجزیہ کار

اتوار کو میرانشاہ میں ہونے والے جلسے سے منظور پشتین خظاب کر رہے ہیں۔ 14 اپریل 2019

پشتونوں کو درپیش انتظامی، سیکورٹی اور معاشی مسائل کے حل کیلئے قائم پشتون تحفظ تحریک کے زیر اہتمام افغانستان سے ملحقہ شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ کے تاریخی جلسے نے نہ صرف حکومتی حلقوں بلکہ ملک بھر کی سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔

میران شاہ کے جلسے میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی۔ مگر شرکاء کی اکثریت کا تعلق وزیرستان ہی سے تھا جو نہ صرف پشتون تحفظ تحریک کے مطالبات پر مبنی نعرے لگا رہے تھے بلکہ ذرائع ابلاع کے نمائندوں اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر حکومتی اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کر رہے تھے۔

میران شاہ کے جلسے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق سینٹر فرحت اللہ بابر نے بھی شرکت کی تھی۔ اس تاریخی جلسے میں شرکت کے بعد فرحت اللہ بابر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ایک پیغام میں حکومت کو پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات اور ان کے مطالبات پر غور کرنے کا مشورہ دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے ایک بار پھر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں طالبان اور عسکریت پسندوں کے سرگرم ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جو حق اور امن کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو دبانا چاہتے ہیں۔

سابق سینئر سول بیوروکریٹ اور افغانستان میں سفیر رستم شاہ مہمند نے بتایا کہ اس وقت حکومت اور اداروں کی غلط منصوبہ بندی اور اقدامات سے قبائلی علاقوں کے لوگ نالاں ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پشتون تحفظ تحریک کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ وہاں پر جتنی بھی زیادتیاں ہوئی ہیں اُن کی تحقیقات کی جائے۔ اگر حکومت بروقت یہ مطالبہ مان لیتی تو پھر پشتون تحفظ تحریک کو زیادہ مقبولیت حاصل نہ ہوتی۔ رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ زیادہ تر قبائلی خیبر پختونخوا میں انضمام کے خلاف ہیں اور اسی لئے وہ پی ٹی ایم کے جلسوں اور سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

پشتون تحفظ تحریک کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر حکومت ضرب عضب میں ہونے والے مالی اور جانی نقصانات کا ازالہ اور گھات لگاکر قتل کرنے کے واقعات پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پاتی تو ہم آئندہ میران شاہ جلسے سے زیادہ سیاسی قوت کا مظاہرہ کرینگے اور ملک کے کسی بھی حصے میں پشتونوں کو سڑکوں پر نکال لیں گے۔

محسن داوڑ نے کہا کہ وہ ہر وقت حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہیں اور حکومت کی قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ بہت جلد مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا۔

حکومتی کمیٹی میں شامل خیبر پختونخوا سے پاکستان تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی اقبال آفریدی نے بتایا کہ پشتون تحفظ تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ رابطہ قائم ہوا ہے اور ان کے ساتھ مذاکرات میں ان کے مطالبات اور حکومت کے بارے میں تحفظات پر بات چیت ہو گی اور ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

پشتون تحفظ تحریک کے ساتھ حکومت نے مذاکرات کرنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب الیکشن کمیشن نے سابق قبائلی علاقوں سے خیبر پختونخوا اسمبلی کی اکیس نشستوں پر انتخابات کیلئے تیاریاں مکمل لی ہیں اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی کوشش ہے کہ صوبے میں ضم ہونے والے ان علاقوں سے زیادہ سے زیادہ نشتیں حاصل کرے۔

وزیر اعظم عمران خان، صوبائی وزیراعلیٰ محمود خان اور تمام تر صوبائی وزرا وقتاً فوقتاً عوامی حمایت کے حصول کیلئے قبائلی اضلاع کے دورے کرتے رہتے ہیں۔ سوموار ہی کو وزیر اعلیٰ محمود خان نے مہمند ایجنسی کے ضلعی ہیڈ کوارٹر غلنی میں کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی تھی۔