پختونوں کو درپیش سیکورٹی اور انتظامی مسائل کے حل کیلئے قائم ’پختون تحفظ تحریک‘ کی اپیل پر منگل کے روز خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں اور قصبوں میں مظاہرے کئے گئے۔
پشاور کے علاوہ جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر وانا، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، مینگورہ سوات اور صوابی میں منعقد کئے جانیوالے احتجاجی مظاہروں میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ اطلاعات کے مطابق، اُنہوں نے مطالبات کے حق میں اور حکومتی اداروں کے خلاف نعرے لگائے۔
’پختون تحفظ تحریک‘ کے سربراہ منظور پشتین نے کسی بھی مظاہرے میں شرکت نہیں کی۔ احتجاجی مظاہروں کا مقصد بیان کرتے ہوئے اُنہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’صوابی سمیت مختلف علاقوں میں تحریک کے کارکن گرفتار کئے جا رہے ہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’سوات میں زمین کافی کم ہے مگر حکومت عوام کی مرضی کے بغیر فوجی چھاؤنی کے قیام پر بضد ہے‘‘۔
اُنھوں نے الزام لگایا کہ ’’شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات برابر جاری ہیں‘‘۔
شمالی وزیرستان میں جون 2014 کو شروع کی جانی والی فوجی کارروائی کے نتیجے میں بے گھر ہونیوالے قبائلیوں کے مسائل کے بارے میں تحریک آئندہ 28 اکتوبر کو بنوں میں ایک احتجاجی ریلی نکالے گی۔
منظور پشتین نے کہا کہ مطالبات کے حل کیلئے اب ان کی تحریک باقاعدہ طور پر شروع ہو چکی ہے۔ پشاور میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شامل شرکا نے حکومتی اداروں کے خلاف نعرے لگائے۔
تحریک کے رہنما ڈاکٹر سید عالم نے ’وائس آف امریکہ‘ کو اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے پختونوں کے خلاف ناروا سلوک کا سلسلہ جاری ہے۔ بقول اُن کے، ’’احتجاجی مظاہروں کے بعد آئندہ اسلام آباد میں دھرنا دینے پر غور کیا جا رہا ہے‘‘۔
سوات میں ’پختون تحفظ تحریک‘ کے مظاہرے میں شامل شرکا اور مقررین نے تعلیمی اداروں اور زرعی زمینوں پر قائم سیکورٹی فورس کے اہلکاروں کے کیمپوں اور بیرکوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
اُدھر صوابی میں چند روز قبل گرفتار کئے جانے والے پختون تحفظ تحریک کے نو رہنماؤں کو مقامی عدالت نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔