تحریکِ انصاف کی حکومت نے لاہور میں جاری اورنج لائن ٹرین منصوبے کے لیے فنڈز جاری کردیے ہیں جب کہ حکام نے کہا ہے کہ حکومت اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
گزشتہ سال پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد لاہور میں زیرِ تعمیر اورنج لائن منصوبے میں دلچسپی نہیں لی تھی اور اِس کے فنڈز روک لیے تھے جس کے باعث منصوبے پر کام ٹھپ ہو گیا تھا۔
نامکمل منصوبہ اہلِ لاہورر کے لیے تکلیف کا باعث تھا۔ رواں ماہ سپریم کورٹ نے اورنج لائن ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے منصوبے کےلیے رقوم جاری کرنے، ٹھیکیداروں کو ادائیگی اور اسے 31 جولائی تک مکمل کر کے چلانے کا حکم دیا تھا۔
لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایک سینئر افسر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا ہے کہ گزشتہ برس بجٹ میں تاخیر کے سبب اورنج لائن کے فنڈز روکے گئے تھے جو اب جاری کر دیے گئے ہیں۔
افسر کے مطابق منصوبے کا 97 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔
افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے کو بتایا کہ پنجاب حکومت کا بجٹ پاس نہ ہونے کی وجہ سے ادائیگیاں رک گئی تھیں جس کے باعث لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا بجٹ بھی رک گیا تھا۔
لیکن ان کے بقول اب ایک ارب روپےکے چیک عدالت میں جمع کرا دیے گئے ہیں۔
افسر نے بتایا کہ جس وقت چین کی حکومت کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت ڈالر 100 سے 103 روپے کا تھا۔ "اب روپے کی قدر میں کمی کے باعث ہمیں سبب کچھ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہم نے تو ان کو پورے ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر واپس دینے ہیں۔"
صوبہ پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان جن کے پاس بلدیات کا قلمدان بھی ہے، انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر اسے مقررہ وقت میں مکمل کرنے کاعندیہ دیا ہے۔
عبدالعلیم خان کہتے ہیں کہ اورنج لائن پر پاکستانی عوام کا 300 ارب روپیہ لگ چکا ہے لہذا اُن کی حکومت اسے بند نہیں کرے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا، "اورنج لائن ٹرین کا خسارہ کم کرنے کے لیے اس کے تمام اسٹیشنوں کو کمرشل کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ اس سے آمدنی ہو سکے۔ پانچ سال بعد ہم اِسے چلانے کے لیے 12۰ ارب روپے سالانہ دیں گے جو ماہانہ 10 ارب بنتے ہیں۔"
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی اورنج لائن منصوبے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ تو اسے سفید ہاتھی سمجھتی ہے اور اِسے مکمل نہیں کرنا چاہتی۔
حمزہ شہاز سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے پر کام کرنے والے چینی ماہرین حیران ہیں کہ جو کام شہباز شریف نے شروع کیا اُسے یہ حکومت مکمل کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی۔
منصوبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ذیشان عثمانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے حصے کا تھوڑا سا کام باقی رہ گیا ہے۔ چند اسٹیشنوں پر تعمیراتی کام اور بعض جگہوں پر مکینیکل کام رہتا ہے جسے 31 جنوری تک مکمل کر لیا جائے گا۔
ذیشان عثمانی کے مطابق ٹرین کی زیادہ تر پٹری بچھا دی گئی ہے جب کہ پانچ بوگیوں اور ایک انجن پر مشتمل 27 ٹرین سیٹ بھی لاہور پہنچ چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اکتیس جولائی تک ٹرین آپریشنل ہو گی جس میں چار مہینے کا ٹائم اس کی ٹیسٹنگ اور کمیشننگ کا ہے جو چینی انجینئرز نے مانگا ہوا ہے۔ ان کے بقول وہ اپنے حصے کا کام 31 جنوری تک مکمل کرلیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت نے چینی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کر کے اورنج لائن میٹرو ٹرین کا منصوبہ ایک اعشاریہ چار ارب امریکی ڈالر کی لاگت سے اکتوبر 2015ء میں شروع کیا تھا جسے 30 جون 2018ء میں مکمل ہونا تھا۔ تاہم مختلف مقدمات اور تنازعات کے باعث منصوبے پر 22 ماہ کام بند رہا تھا۔
معاہدے کے تحت منصوبے کا سول اور مکینیکل کام حکومتِ پنجاب نے جب کہ الیکٹریکل کام چینی کمپنیوں کو کرنا تھا۔ منصوبے کے لیے زمین پنجاب حکومت نے مہیا کی جس کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے تھے جو منصوبے کی لاگت میں شامل نہیں۔