الیکشن کمیشن میں غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت کے دوران بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے اسکروٹنی کمیٹی کو تحریک انصاف کے 23 اکاؤنٹس کے بارے میں بتایا ہے۔ الیکشن کمیشن نے جانچ پڑتال کمیٹی کی کارروائی لیک ہونے سے متعلق تحریک انصاف کی 4 درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ ’’اگر کچھ میڈیا پر نشر ہوتا ہے تو اس میں کمیٹی کا کیا قصور؟‘‘
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے 3 رکنی بینچ نے تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت کی۔
چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ ’’تحریک انصاف نے کمیٹی کو 4 نئی درخواستیں دی ہیں۔ اسکروٹنی کمیٹی نے درخواستیں ہمیں بھجوائی ہیں کہ فیصلہ چیف الیکشن کمشنر کرے۔ آپ صرف کام کا دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں‘‘۔
تحریک انصاف کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ’’اسکروٹنی کمیٹی سے متعلق غلط خبریں چلوائی گئیں‘‘۔
وکیل نے کہا کہ ’’غلط خبریں چلوانے کا مقصد پی ٹی آئی کو بدنام کرنا تھا۔ ہماری چاروں درخواستوں میں یہی مطالبہ ہے کہ کمیٹی کی کارروائی کی لیکج روکی جائے اور کمیٹی کی غلط معلومات لیک کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہ سب درخواست گزار اکبر ایس بابر کی بدنیتی ہے‘‘۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کسی خبر پر کمیٹی کیسے ذمہ دار ہوگی؟
چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ ’’ساڑھے پانچ سال میں آپ کے ساتھ ہوا ہی کیا ہے جو بدنیتی کا الزام لگا رہے ہیں۔ ٹی وی پر اگر کچھ آتا ہے تو آپ نظرانداز کریں۔ جن 23 اکاؤنٹس کا ذکر کیا جا رہا ہے کیا یہ اسٹیٹ بینک نے لکھا ہے؟‘‘
درخواست گزار کے وکیل احمد حسن ایڈووکیٹ نے جواب میں بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو تحریک انصاف کے 23 اکاؤنٹس کے بارے میں بتایا ہے۔ کمیٹی کی ہر میٹنگ میں تحریک انصاف کی نمائندگی موجود تھی۔ تحریک انصاف کے نمائندہ کی عدم حاضری کے باعث تو کمیٹی میٹنگ بھی نہیں ہوتی تھی، تحریک انصاف کے اپنے لوگوں نے معلومات لیک کی اور انفارمشن لیکج کا بہانہ بنا کر بھاگ رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے وکیل نے درخواست گزار سے متعلق مرضی کا آرڈر لینے کی بات کی تو چیف الیکشن کمشنر نے برہمی کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ یہ رویہ نامناسب ہے۔ درخواست گزار نے کب یہاں سے فائدہ اٹھایا؟ اس پر پی ٹی آئی وکیل نے معذرت کر لی۔
دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی چار درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو 10 اکتوبر کو سنایا جائے گا۔
درخواست گزار اکبر ایس بابر نے بعد ازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ، ڈنمارک، آسٹریلیا سمیت مڈل ایسٹ میں تحریک انصاف نے فنڈنگ حاصل کی۔ پانچ سالوں میں تحریک انصاف سکروٹنی اور تحقیقات سے بھاگتی رہی۔ تحریک انصاف کا بانی رکن ہوتے ہوئے کچھ چیزیں میرے سامنے آئیں‘‘۔
اکبر ایس بابر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’تحریک انصاف کی کارکردگی کا بھانڈا پھوٹ چکا۔ اگر تحریک انصاف اور اس کے رہنما سیدھے راستے پر رہتے تو آج یہ حال نہ ہوتا‘‘۔
فارن فنڈنگ معاملہ کیا ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے نومبر 2014 میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ لینے کے معاملے پر درخواست الیکشن کمیشن میں دائر کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو بیرون ممالک سے بھاری مقدار میں فنڈنگ حاصل ہوئی۔ لیکن، الیکشن کمیشن کو جو ریکارڈ فراہم کیا گیا ہے وہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ انہوں نے ان فنڈز میں خردبرد کا الزام مختلف پارٹی قائدین پر عائد کیا۔
اس کیس میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اب تک ہر بار وقت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس پر الیکشن کمیشن نے اگست 2017 میں غیر ملکی فنڈنگ لینے کے معاملے کی سماعت روکنے کی درخواست رد کرتے ہوئے اسے ریکارڈ جمع کروانے کے لیے سات ستمبر تک کی حتمی مہلت دی تھی، اس وقت تحریک انصاف نے کمیشن میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ اسی نوعیت کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر التوا ہے اور اُن کے موکل نے پارٹی کو ملنے والی غیر ملکی فنڈنگ کے بارے میں معلومات جمع کروا دی ہیں۔ تاہم، الیکشن کمیشن نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے سماعت جاری رکھنے اور تمام ریکارڈ جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں، الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بنک کو اس حوالے سے حکم دیا جس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے مختلف کمرشل بنکوں میں موجود کل 26 اکاؤنٹس میں سے 8 کو ظاہر کیا اور ان کی تفصیل الیکشن کمیشن میں عمران خان کے دستخطوں سے جمع کروائی، جبکہ 18 اکاؤنٹس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بے نامی اکاؤنٹس تھے جن میں بیرون ملک سے آنے والی فنڈنگ جمع کی جاتی رہی۔ لیکن یہ فنڈنگ کہاں خرچ ہوئی اس بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ پاکستان کی حزب اختلاف انہی بے نامی اکاؤنٹس کا تذکرہ کرکے تحریک انصاف کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اس کیس میں مختلف تاخیری حربے استعمال کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے اور اس کیس کی منگل کے روز ہونے والی سماعت 18ماہ کے عرصہ کے بعد ہوئی ہے۔ آخری سماعت مارچ 2018 میں ہوئی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کے حوالے سے اکبر ایس بابر کی طرف سے عائد کردہ تمام الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ سیاسی مخالفین کے ایما پر پارٹی کو بدنام کرنے کے لیے یہ کیس بنایا گیا ہے۔