نیویارک: جیوری کے فیصلے کے خلاف مظاہرے

فائل فوٹو

مظاہرین میں شامل راکیول گرفن کا کہنا تھا کہ ’’لوگوں کو پتا چلنا چاہیے کہ وہ خیال رکھتے ہیں اور یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ یہ نیویارک ہے جو دیگر ریاستوں میں ہوتا ہے وہ یہاں نہیں ہوسکتا۔‘‘

غیر مسلح سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے الزام میں سفید فام پولیس افسر کو بری کرنے کے جیوری کے فیصلے کے خلاف امریکی شہر نیویارک میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔

بدھ کو دیر گئے درجنوں افراد نے شہر کے مشہور ٹائمز اسکوائر میں ریلی نکالی۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد راک فیلر پلازہ کے قریب بھی جمع ہوئی جہاں کرسمس کے روایتی درخت کو روشن کرنے کی ایک تقریب منعقد ہونا تھی۔ پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کر کے مظاہرین کو اس طرف جانے سے روکا۔

اسی طرح گرینڈ سنٹرل ٹرمینل پر بھی بہت سے لوگ جمع ہوئے۔

رواں سال جولائی میں نیویارک کے علاقے اسٹیٹن آئی لینڈ میں پولیس اہلکار ڈینیئل پنٹیلیو نے 43 سالہ سیاہ فام ایرک گارنر کو گلے سے دبوچا تاکہ اسے دیگر اہلکار اسے گرفتار کر سکیں۔

لیکن گارنر کی موت واقع ہو گئی اور اس سارے واقعے کی وہاں موجود لوگوں نے اپنے موبائل فون سے وڈیو بھی بنا تھی۔

بدھ کو ڈسٹرکٹ اٹارنی ڈینیئل ڈنوون نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ اس مقدمے کی سماعت کرنے والی جیوری نے سفید فام پولیس اہلکار کو قتل کے الزام سے بری کرنے کا فیصلہ کیا۔

مظاہرین میں شامل راکیول گرفن کا کہنا تھا کہ ’’لوگوں کو پتا چلنا چاہیئے کہ وہ خیال رکھتے ہیں اور یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ یہ نیویارک ہے جو دیگر ریاستوں میں ہوتا ہے وہ یہاں نہیں ہوسکتا۔‘‘

پولیس کا موقف تھا کہ گارنر سڑک پر غیر قانونی طور پر سگریٹ فروخت کر رہا تھا اور اس نے گرفتاری سے بچنے کے لیے مزاحمت کی تھی۔

گارنر چھ بچوں کا باپ تھا اور اسے دمے کا مرض بھی لاحق تھا۔ گلا دبوچے جانے سے اس کی موت واقع ہوئی جسے بعد ازاں موسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں نے قتل قرار دیا۔

امریکہ کے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے بدھ کو دیر گئے اعلان کیا کہ وہ گارنر کی موت کی شہری حقوق کے زیر انتظام تحقیقات شروع کروا رہے ہیں۔ اس تحقیقات کا مطالبہ حقوق انسانی کے کارکنان اور گارنر کے لواحقین کئی ہفتوں سے کرتے آرہے ہیں۔