یوکرین کے دارالحکومت کے وسطی علاقے میں بدھ کی صبح سویرے تک آگ کے شعلے بڑھکتے رہے اور دستی بموں کی آویزیں آتی رہیں، جب کہ بلوے سے نبردآزما ہونے پر مامور پولیس نے مخالفین کے کلیدی احتجاجی کیمپ پر لاٹھیاں برسائیں۔ جھڑپوں میں کم از کم 18 افراد ہلاک ہوئے، جب میں سات پولیس اہل کار شامل ہیں۔
پولیس اور مخالفین کے نمائندوں نے کہا ہے کہ ہلاکت کی وجہ گولیاں لگنا تھا، جن میں سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، اُن میں درجنوں ایسے ہیں جن کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
یوکرین کے اپوزیشن لیڈر، وِٹالی کلشکو نے مغرب نواز مظاہرین پر زور دیا کہ وہ کیو کے آزادی کے چوک کو خالی کردیں، جسے ’میدان‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے، تاکہ اپنا دفاع خود کیا جاسکے۔
اُنھوں نے خواتین اور بچوں کو متنبہ کیا کہ وہ علاقے سے چلے جائیں۔
بعدازاں، کلشکو صدر وِکٹر یناکووچ سے ہنگامی مذاکرات کرنے والے ہیں، تاکہ مہلک قسم کے اس بحران کے خاتمے کی کوششیں کی جائیں، جس نے سال 1991ء میں سوویت یونین سے آزادی ملنے کے بعد سے یوکرین کے لیے مہلک ترین شکل اختیار کر لی ہے۔
دریں اثنا، امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے مسٹر یناکووچ سے ٹیلی فون گفتگو میں تشدد کی کارروائیوں پر اپنی ’گہری تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے، یوکرین کے صدر سے مطالبہ کیا کہ سلامتی کے اہل کاروں کو واپس بلایا جائے اور انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔
بائیڈن نے مسٹر یناکیووچ کو بتایا کہ اُن کی حکومت پر بحران کے حل کی ’خصوصی ذمہ داری‘ عائد ہوتی ہے۔
حکومت مخالف احتجاج ہفتوں سے جاری ہے، جس میں سرگرم کارکن مسٹر یناکووچ کےاقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، کیونکہ اُنھوں نے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے کے بجائے روس کے ساتھ تعلقات میں قربت پیدا کرنے کو ترجیح دی۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے منگل کے روز کہا کہ امریکہ کو یوکرین میں ہونے والے تشدد پر ’سخت تشویش‘ ہے۔ اُنھوں نے مسٹر یناکووف پر زور دیا کہ کشیدگی میں کمی لائی جائے۔
امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے مسٹر یناکووچ سے ٹیلی فون گفتگو میں تشدد کی کارروائیوں پر اپنی ’گہری تشویش ‘ کا اظہار کرتے ہوئے، یوکرین کے صدر سے مطالبہ کیا کہ سلامتی کے اہل کاروں کو واپس بلایا جائے اور انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا جائے
واشنگٹن —