امریکہ کی ریاست شمالی کیرولائنا کے شہر شارلٹ میں ایک سیاہ فام پولیس افسر کی گولی سے ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اس دوران مظاہرین کی پولیس سے مڈبھیڑ کے علاوہ احتجاج کرنے والوں نے ایک بڑی شاہراہ کو بھی بند کر دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ منگل کی سہ پہر پولیس افسران ایک عمارت میں کسی کو تلاش کر رہے تھے کہ وہاں ان کا سامنا 43 سالہ کیتھ لامونٹ اسکاٹ سے ہوا، جو بندوق اٹھائے اپنی گاڑی سے نکل کر رہا تھا۔
مقامی پولیس کے سربراہ کر پٹنی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جس پولیس افسر نے اسکاٹ کو گولی ماری اسے لگا کہ وہ ایک "فوری خطرہ" ہے۔ جائے وقوع سے ایک بندوق بھی برآمد ہوئی لیکن اسکاٹ کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ نہتا تھا۔
اس واقعے کی خبر منظر عام پر آتے ہی لوگ احتجاج کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے اور مظاہرے کا یہ سلسلہ بدھ کی صبح تک بھی جاری رہا۔
یہاں موجود پولیس اہلکاروں نے فساد کو روکنے کی تیاری کر رکھی تھی لیکن ایک موقع پر جب احتجاج بڑھا تو انھیں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کا استعمال بھی کرنا پڑا۔
اطلاعات کے مطابق 12 پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد اس جھڑپ میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔
شارلٹ کی میئر جینیفر رابرٹس نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ "لوگ جوابات چاہتے ہیں۔" انھوں نے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا عزم بھی کیا۔
مظاہرین کی طرف سے لگائے جانے والے نعروں میں یہ نعرہ بھی شامل تھا کہ "ہاتھ اٹھاؤ، گولی نہ مارو"، جو کہ امریکہ بھر میں مختلف مقامات پر حالیہ چند برسوں کے دوران پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی حق میں نکالی گئی ریلی میں بھی سنا جاتا رہا ہے۔
منگل کو ہی وسط مغربی شہر ٹلسا میں پولیس کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے بھی ایک مظاہرہ دیکھا گیا۔ یہاں جمعہ کو ایک اپنی گاڑی کے پاس کھڑے ایک سیاہ فام شخص کو پولیس افسر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
ٹیرنس کرچر کو گولی مارنے والی افسر کے وکیل کا کہنا ہے کہ انھوں اس وقت خطرہ محسوس ہوا جب کرچر نے کھڑکی کے ذریعے ان کی گاڑی میں آنے کی کوشش کی اور اس اثنا میں انھوں نے گولی چلا دی۔
تاہم کرچر کے لواحقین اس سے اختلاف کرتے اور انھوں نے پولیس کی طرف سے جاری کی وڈیو سے حاصل کردہ تصاویر دکھائیں جن میں یہ نظر آ رہا ہے کہ گاڑی کے شیشے بند تھے۔
لواحقین اس پولیس افسر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔