ہرنائی میں فورسز کی مبینہ فائرنگ سے اے این پی رہنما کی ہلاکت، مظاہرین کا لاش کے ہمراہ دھرنا

مظاہرین یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ علاقے سے فورسز کی غیر ضروری چوکیوں کو باہر منتقل کیا جائے .

بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں سیکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مقامی رہنما کی موت کے خلاف دھرنا دوسرے روز بھی جاری ہے جب کہ مظاہرین لاش کے ہمراہ احتجاج کر رہے ہیں۔

ہرنائی میں دھرنے میں شریک ایک شخص عطا اللہ نے وائس آف امریکہ کوبتایا کہ 14 اگست کی شب سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا، جس میں مقامی افراد بھی زد میں آئے تھے جب کہ ایک بچے سمیت دو افراد زخمی ہوئے تھے۔

عطا اللہ کا کہنا تھا کہ اگلی صبح جب زخمی افراد کو اسپتال لے جایا جارہا تھا تو سیکیورٹی فورسز نے علاقے کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی اور زخمی افراد کو اسپتال لے جانے کی اجازت نہیں دی۔ سیکیورٹی اہلکاروں کے اس رویے کے خلاف مقامی افراد نے احتجاج کیا جس کے بعد فورسز نے مبینہ طور پر فائرنگ کی جس سے اے این پی مقامی رہنما خالق داد ہلاک ہوئے جب کہ دیگر نو افراد زخمی ہوئے۔

دھرنے میں شریک مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک دھرنا ختم نہیں کریں گے جب تک سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے واقعے پر جوڈیشل کمیشن قائم نہیں کیا جاتا۔پولیس واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں کررہی۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ واقعے کی ایف آئی درج کی جائے۔

مظاہرین یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ علاقے سے فورسز کی غیر ضروری چوکیوں کو باہر منتقل کیا جائے جب کہ اختیارات مقامی انتظامیہ کو دیے جائیں۔

ہرنائی میں احتجاجی دھرنے میں عوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ( پی کے میپ) اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے کارکنان شریک ہیں۔

حکومت اور مقامی انتظامیہ اس واقعے کے حوالے تفصیلات بتانے سے گریز کر رہے ہیں البتہ حکام کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ مذاکرات کے ذریعے احتجاج ختم کرایا جائے تاکہ ہلاک ہونے والے شخص کی تدفین کا عمل مکمل ہو۔

اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہیں جو مظاہرین سے مذاکرات میں مصروف ہے۔

سوشل میڈیا پر ہرنائی واقعے کی ایک مبینہ ویڈیو وائرل ہے جس میں شدید فائرنگ اور پھر مظاہرین کی بھگدڑ نظر آ رہی ہے۔ اس ویڈیو میں لوگوں کے چلانے کی آواز بھی آ رہی ہے کہ خالق داد کو گولی لگی ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں تحریک پیش

بلوچستان اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے ہرنائی میں فائرنگ سے کارکن کی ہلاکت کے خلاف صوبائی اسمبلی میں تحریکِ التوا بھی پیش کی۔

تحریک کے متن میں کہا گیا ہے کہ 14 اگست کو ہرنائی کے علاقے کھوسٹ میں پرامن احتجاج کرنے والے سیاسی کارکنوں پر سرکاری اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں اے این پی کا ایک کارکن خالق داد ہلاک ہوا جب کہ متعدد افراد زخمی ہوئے۔

بعد ازاں اصغر خان اچکزئی نے اسمبلی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی صاف شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل انکوائری چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت ہرنائی کے لوگ مشکل صورتِ حال سے گزر رہے ہیں۔عوام خصوصاً نوجوانوں میں واقعے کے بعد شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

اصغر خان کا مزید کہنا تھا کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ لاش کے ہمراہ لوگ احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں مگر کوئی ان سے مذاکرات کرنے نہیں آیا۔

دوسری جانب ہرنائی کے ڈپٹی کمشنر رفیق ترین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ضلعی انتظامیہ دھرنے پر بیٹھے افراد سے بات چیت کر رہی ہے اور اب تک مذاکرات کے چار ادوار ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جلد ہی بات چیت کے ذریعے اس معاملے کو حل کر لیا جائے گا البتہ انہوں نے ایف آئی آر کے عدم اندراج پر کوئی بات نہیں کی۔

اس سلسلے میں جب صوبائی حکومت کا مؤقف جاننے کے لیے ترجمان بلوچستان حکومت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کی جانب سے خبر کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔

واضح رہے کہ فائرنگ کے اس واقعے سے قبل دہشت گردوں نے ایک سیکیورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ کی تھی جس سے فوج کے دو اہلکار ہلاک جب کہ ایک افسر زخمی ہوئے تھے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ دہشت گردوں نے 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب ہرنائی کے علاقے کھوسٹ میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیاتھا تاہم فورسز نے کامیابی سے حملے کو ناکام بنایا۔بیان میں کہا گیا تھا کہ حملہ آوروں کا تعاقب کیا گیا البتہ وہ قریبی پہاڑوں میں فرار ہوگئے تھے۔ انہیں گھیر کر روکنے کی کوشش کے دوران فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپ کے دوران دو اہلکار نائیک عاطف اور سپاہی قیوم ہلاک ہوئے جب کہ سیکیورٹی فورسز کے افسر میجر عامر زخمی ہوئے۔