دہشت گردی کا خوف؛ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کے خلاف سوات اور کرم میں امن ریلیاں

ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کے خلاف سوات اور کرم میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور حکومت سے قیامِ امن کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔

خیبر پختونخوا کی وادیٴ سوات اور قبائلی اضلاع سمیت مختلف علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے منسلک عسکریت پسندوں کے منظر عام پر آنے اور کالعدم تنظیم کی سرگرمیاں شروع ہونے کے خلاف امن ریلیوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ اور افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلعے کرم کے شہر سدہ میں اتوار کو ہزاروں افراد نے ہاتھوں میں سفید پرچم لیے امن کے حق میں اور دہشت گردوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے احتجاج کیا۔

ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد جمیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ضلعے کے سب سے بڑے شہر سدہ کے ساتین چوک میں ہرطبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے ’کاروانِ امن‘ نامی مارچ میں شرکت کی۔یہ مارچ ساتین سدہ بائی پاس سے ہوتے ہوئے سدہ شہر پہنچے ۔

ان کے مطابق امن مارچ میں بچے، بوڑھے اور جوان سب ہی شامل تھے، جن کے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ تھے جن پر امن کے حق میں نعرے درج تھے۔

’یہ علاقہ مزید دہشت گردی کا متحمل نہیں ہوسکتا‘

مینگورہ سے تعلق رکھنے والے صحافی عیسی خان خیل نے بتایا کہ سول سوسائٹی کی انجمنوں سے منسلک افراد اور سوات قومی جرگے کے اپیل پر ’امن ریلی‘ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے مقامی سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے سے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

محمد جمیل نے بتایا کہ مظاہرین جب سدہ چوک پہنچے تو مارچ نے جلسے کی شکل اختیار کر لی، جس سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ضلع کرم میں امن اور ترقی چاہتے ہیں۔ یہ علاقہ مزید دہشت گردی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

مقامی صحافیوں کے مطابق امن مارچ میں ہر عمر کے افراد شامل تھے۔

مقررین کے مطابق اس سے قبل بھی دہشت گردی کی لہر میں یہاں کے لوگوں نے بہت جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے۔ ابھی تک وہ زخم بھرے نہیں ہیں کہ اب ایک بار پھر دن بدن خوف کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔

مقررین کا کہنا تھا کہ حکومت اور ریاست دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قبائلی علاقوں میں صورتِ حال پر فوری کارروائی کریں جب کہ عوام کو یقین دہانی کرائی جائے کہ ضلع کرم میں کسی قسم کی دہشت گردی نہیں ہوگی اور ان کے جان و مال محفوظ رہیں گے۔

امن مارچ میں دونوں مکاتب فکر کے لوگ شامل

افغانستان کے تین مختلف سرحدی صوبوں سے ملحقہ قبائلی ضلع کرم گزشتہ چار دہائیوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی سے متاثرہ علاقوں میں شامل رہا ہے۔

اتوار کو ’امن مارچ‘ میں ہر مکاتب فکر کے لوگ شریک ہوئے جب کہ امن کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف نعرے لگائے گئے۔

مینگورہ امن ریلی

سوات کے مرکزی تجارتی اور انتظامی شہر مینگورہ میں مختلف انجمنوں اور سوات قومی جرگ کے زیر اہتمام امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے خلاف احتجاج میں مقامی افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

سوات کے شہر مینگورہ میں مختلف علاقوں سے جلوسوں کے شکل میں آنے والے لوگ امن امن کے نعرے لگاتے رہے۔

مختلف علاقوں سے جلوسوں کے شکل میں آنے والے لوگ امن امن کے نعرے لگاتے رہے۔ یہ ریلی مینگورہ شہر کے نشاط چوک میں جلسے کی شکل اختیار کر گئی تو اس سے مختلف تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے خطاب کیا۔

خطاب کرنے والوں میں سوات قومی جرگے کے سربراہ شیر بہادر خان، بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد سلیم خان، سابق صوبائی وزیر ایوب اشاڑی اور دیگر شامل تھے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ لوگوں نے ماضیٴ قریب میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے حکومت اور سیکیورٹی فورسز کےساتھ بہت تعاون کیا ہے مگر اب وہ کسی بھی قیمت پر علاقہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

مقررین نے حکومت پر زور دیا کہ ریاست شہریوں کو امن و امان فراہم کرنے کا وعدہ پورا کرے۔

مقررین نے کہ کہا کہ سوات میں دہشت گردی برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس پر وہ حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں مگر امن و امان میں ناکامی ریاست کی ناکامی ہو گی۔

احتجاج میں شریک افراد کے ہاتھوں جھنڈے تھے جن پر امن کے حوالے سے نعرے درج تھے۔

مقررین نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے سوات اورصوبے کے دیگر علاقوں میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں سے پیدا شدہ صورت حال پر خاموشی پر سخت تنقید بھی کی۔

خیبر پختونخوا میں برسرِ اقتدار پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک روز قبل چارسدہ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب میں سوات اور دیگر علاقوں میں امن و امان کی صورتِ حال پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

عمران خان نے کہا تھا کہ عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کی ابھی تک کسی قسم کی حکمتِ عملی نظر نہیں آئی ہے۔