نیو ہمپشائر میں ووٹر کیا کہتے ہیں؟

ووٹر پولنگ بوتھ میں اپنا ووٹ ڈال رہے ہیں۔

نیو ہیمپشائر کے رہائشی برائن ماہر کہتے ہیں کہ وہ رائے عامہ کے جائزوں میں یقین نہیں رکھتے۔ جائزے مرتب کرنے والے تین سو لوگوں سے بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک امیدوار کو اتنی سبقت حاصل ہے۔

نیو ہیمپشائر میں شام سے برفباری جاری ہے۔ سڑکوں پر برف کا کیچڑ ہے اور ہوٹلوں میں صدارتی نامزدگی کے خواہش مند امیدواروں کے حامی۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نو فروری کی صبح ووٹرز ٹرن آوٹ توقع کے مطابق نہیں رہے گا۔

لیکن موسم کی سختی اور برف کا کیچڑ صدارتی نامزدگی کے امیدواروں کو نہ تو انتخابی ریلیوں سے روک سکا ہے اور نہ ہی انہیں جاننے کے خواہش مند ووٹروں کو ان کی تقریریں سننے سے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نیو ہیمپشائر میں ڈونلڈ ٹرمپ اب تک ریپبلکن پارٹی کے 30 فیصد رجسٹرڈ ووٹروں کے پسندیدہ امیدوار ہیں۔

ان کے بعد دوسرے نمبر پر ریاست اوہائیو کے گورنر جان کیسک ہیں جو سولہ فیصد رجسٹرڈ ریپبلکن ووٹروں کی حمایت کے ساتھ دیگر ریپبلکن امیدواروں سے معمولی سبقت رکھتے ہیں۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے رجسٹرڈ ووٹرز میں برنی سینڈرز کو ہلری کلنٹن پر رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق دس فیصد کی سبقت حاصل ہے۔ یہ سبقت پچھلے مہینے چودہ فیصد تھی۔ یعنی اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔

نیو ہیمپشائر کے رہائشی برائن ماہر کہتے ہیں کہ وہ رائے عامہ کے جائزوں میں یقین نہیں رکھتے۔ جائزے مرتب کرنے والے تین سو لوگوں سے بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک امیدوار کو اتنی سبقت حاصل ہے۔ ان کے بقول ’’میں سمجھتا ہوں کہ اصل سبقت کا پتہ پولنگ کے روز ہی چلتا ہے۔‘‘

نیو ہیمپشائر رویتی طور پر ایک سونگ یا پرپل اسٹیٹ کہلاتی ہے ۔ اس ریاست کا نصب العین ہے Live Free or Die یعنی ’’آزادی سے زندہ رہیں یا مر جائیں۔‘‘

رابرٹ ہمیں نیو ہیمپشائر کے شہر مانچسٹر میں ایک بڑی فون کمپنی کے نام پر قائم ایک بڑے اسٹیڈیم میں ملے۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کو سننے آئے تھے اور ٹرمپ کے حامی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’میں پہلے سے سوچتا تھا کہ کوئی ایسا شخص امریکہ کا صدر بنے جو کاروبار کرتا ہو اور سیاستدان نہ ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایسے ہی ہیں۔‘‘

ڈونا موسو مانچسٹر میں وائے ایم سی اے نامی ادارے کے لئے کام کرتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ہلری کلنٹن صدارتی نامزدگی جیتنے میں کامیاب ہوں گی مگر ان کا ووٹ برنی سینڈرز کے لئے ہے۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو پسند نہیں کرتیں اور کہتی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقلیتوں اور تارکین وطن کے بارے خیالات سے انہیں اتفاق نہیں۔

نیو ہیمپشائر میں غیر ہسپانوی سفید فام ووٹروں کی تعداد دو ہزار دس کے اعدادوشمار کے مطابق 92 فی صد ہے ۔ یعنی اس ریاست میں اقلیتی آبادی کی تعداد امریکہ کی قومی آبادی کی کل اوسط سے 5 گنا کم ہے۔

نیو ہیمپشائر میں آباد پاکستانیوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔

زیادہ تر پاکستانی یہاں اپنے کاروبار کرتے ہیں، انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں یا پھر ڈاکٹر ہیں۔

ڈاکٹر سلمان ملک کاسمیٹک ڈینٹل سرجن ہیں۔ امریکہ میں تیس سال سے اور نیو ہیمپشائر میں اٹھارہ سال سے مقیم ہیں۔ پاکستانی امریکیوں کی ایک تنظیم پاک پیک کے بورڈ ممبر ہیں۔ یہ تنظیم امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کو امریکہ کے سیاسی اور انتخابی عمل کا حصہ بنانے کے لئے سرگرم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی امریکی روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ حالیہ صدارتی انتخاب میں بھی پاکستانی امریکیوں کا زیادہ ووٹ ڈیموکریٹک پارٹی کے حق میں ہی جائے گا۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کو سنجیدہ امیدوار نہیں سمجھتے۔ ان کے بقول ’’ڈونلڈ ٹرمپ وہ کہہ رہے ہیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں۔ میں برنی سینڈرز کے حق میں ہوں۔‘‘

معظم قطب نیو ہیمپشائر میں اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ہر بات غلط نہیں ہے۔ سان برنارڈینو، کیلی فورنیا میں جو ہوا اس کے بعد امریکہ میں ان کے بقول، ’’مسلمانوں یا پاکستانیوں کے خلاف کوئی ردعمل آنا حیران کن نہیں۔‘‘

نیو ہیمپشائر پرائمری کو امریکی صدارتی انتخاب کا بےحد اہم یعنی میک اور بریک مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم یہاں کامیابی صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کی ضمانت نہیں۔