|
اسلام آباد -- صدرِ مملکت آصف زرداری نے وفاقی کابینہ سے منظور کیے گئے 'پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس' کی منظوری دے دی ہے۔ وفاقی وزیر عطا تارڑ اس آرڈیننس کا دفاع کر رہے ہیں جب کہ تحریکِ انصاف کے حمایتی وکلا اسے عدلیہ پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ میں ترمیم مناسب سمجھی گئی، اب جو کیس پہلے آئے گا اس کی پہلے سماعت ہو گی۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے کابینہ نے سرکولیشن سمری کے ذریعے منظوری لی جس کے بعد اب چیف جسٹس کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے۔
پہلے سے موجود پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق چیف جسٹس اور دو سینئر ججز بینچ کی تشکیل کے ذمہ دار تھے۔ لیکن آرڈیننس کے بعد اب چیف جسٹس، سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کی مرضی کا ایک جج بینچ بنانے کے ذمے دار ہوں گے۔
'پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ' کی سیکشن دو میں ایک ذیلی شق شامل کی گئی ہے جس کے تحت کمیٹی میں چیف جسٹس پاکستان کے علاوہ ایک سینئر ترین جج اور ایک چیف جسٹس پاکستان کا نامزد کردہ جج شامل ہو گا۔
آرڈیننس نافذالعمل ہونے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے مطابق دوسرے سینئر ترین جج جسٹس منیب اختر کو تین رکنی ججز کمیٹی سے باہر کردیا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے مطابق فیصلے میں دوسرے سینئر ترین جج جسٹس منیب اختر تین رکنی ججز کمیٹی کے ممبر نہیں رہے۔ جب کہ جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی کا رکن نامزد کر دیا گیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان سنیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر ہیں۔
نئی ترامیم کیا ہیں؟
آرڈیننس میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن تین میں ترمیم کی گئی ہے۔ سیکشن تین کی ذیلی شق دو کے تحت اور آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت معاملے پر سماعت سے قبل مفادِ عامہ کی وجوہات دینا ہوں گی۔
آرڈیننس میں سیکشن سات اے اور سات بی کو شامل کیا گیا ہے، سیکشن سات اے کے تحت ایسے مقدمات جو پہلے دائر ہوں گے انھیں پہلے سنا جائے گا۔ اگر کوئی عدالتی بینچ اپنی ٹرن کے برخلاف کیس سنے گا تو اسے اس کی وجوہات دینا ہوں گی۔
اسی طرح سیکشن سات بی کے تحت ہر عدالتی کیس، اپیل کی ریکارڈنگ ہو گی اور ٹرانسکرپٹ تیار کیا جائے گا۔ یہ ٹرانسکرپٹ اور ریکارڈنگ عوام کے لیے دستیاب ہو گی۔
آرڈیننس میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس سیشن میں نہیں ہیں، صدر مملکت مطمئن ہیں کہ ایسے حالات ہیں جن کے سبب آرڈیننس لایا جائے۔ صدر مملکت نے آرڈیننس آرٹیکل (1) 89 کے تحت جاری کیا۔
اس بارے میں وزارت قانون نے پرنٹنگ کارپوریشن کو خط لکھ دیا کہ آرڈیننس کا گزٹ نوٹی فکیشن ایکسٹرا آرڈنری گزٹ پارٹ ون میں جمعے کو ہی شائع کیا جائے۔ گزٹ نوٹی فکیشن شائع کر کے کاپیاں وزارت قانون کو فراہم کی جائیں۔
'عدالتی عمل کو شفاف بنانے کے لیے آرڈیننس لایا گیا'
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اطلاعات نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت اس آرڈیننس پر دستخط کر چکے ہیں۔
اُن کے بقول آرٹیکل 184(3) کے تحت آنے والے کیسز کا تحریری طور پر بتانا ہو گا کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ کیوں ہے۔ ایک باقاعدہ آرڈر جاری کیا جائے گا کہ 184(3) کے تحت کوئی کیس لیا گیا ہے تو اس میں کیا ایسی بات ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ آرڈیننس کے تحت 184(3) کا جو بھی آرڈر سپریم کورٹ پاس کرے گی، اس کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت جج صاحبان کیس کے دوران جو بھی بات کریں گے اس کا ٹرانسکرپٹ تیار کیا جائے گا اور یہ تحریر عوام کے لیے بھی دستیاب ہو گی۔
وزیر اطلاعات کے بقول عدالتی عمل کو مزید شفاف بنانے کے لیے یہ ضروری ہے، آئینی پیکیج میں بھی عوام کو سہولت دینے کی بات کی گئی تھی، اب جو کیس پہلے آئے گا اس کی سماعت پہلے ہو گی۔ بعد میں آنے والا کیس بعد میں سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ تیسرے ممبر کی عدم دستیابی کی وجہ سے کیسز تاخیر کا شکار ہوتے تھے، 63 اے کا نظرثانی کیس آج تک التوا کا شکار ہے، 63 اے کی نظرثانی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی فیصلہ آ جانا چاہیے تھا۔ یہ تمام اصلاحات اور ترمیم عوام کے مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہیں۔
SEE ALSO: قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے تحریکِ انصاف کو پارٹی پوزیشن کی فہرست سے کیوں نکالا؟'یہ آرڈیننس عدلیہ پر حملہ ہے'
پاکستان تحریک انصاف سے منسلک سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ آرڈیننس عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس آرڈیننس کا مقصد ٖصرف ایک شخص کو بچانا اور ایکسٹینشن پر عمل درآمد کرنا ہے۔ اسی وجہ سے ایسا بدنیتی پر مبنی قانون جاری کیا گیا ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر میں تین سینئر موسٹ ججز کو بینچ بنانے کا اختیار تھا۔ لیکن اس اختیار کو ختم کر کے چیف جسٹس کو زیادہ اختیار دے کر طاقت کا توازن خراب کیا گیا ہے۔ یہ قانون بدنیتی پر مبنی ہے اور اس کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔
اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا مقصد ہی یہ تھا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کیا جائے اور یہاں پر چیف جسٹس کے اختیارات میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس کی مرضی کے جج کا مطلب ہے کہ چیف جسٹس کو ہی بینچ بنانے کا اختیار مل گیا ہے۔ اس بارے میں جو کیس سپریم کورٹ میں لگا تھا یہ آرڈیننس اس کیس میں دیے گئے فیصلے کے ہی خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے حکومت کوئی قانون نہیں بنا سکتی اور یہ آئین کے آرٹیکل 175 کے خلاف ہے۔